راولپنڈی لاپتہ افراد کیس‘ سپریم کورٹ میں وزارت دفاع کے نمائندے کی سرزنش،لاپتہ افراد کا معاملہ نامکمل نہیں چھوڑ سکتے‘ وزارت دفاع کی معاونت یہی ہوگی کہ وہ بتائے لاپتہ افراد کہا ں ہیں؟‘ سپریم کورٹ،ایف آئی اے لاہور حراستی سنٹر کے انچارج کو 28 جنوری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم

منگل 14 جنوری 2014 07:32

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14جنوری۔ 2013ء) سپریم کورٹ میں لاہور اور راولپنڈی سے لاپتہ دو نوجوانوں حافظ محمد جمیل اور مدثر اقبال کیس میں دو رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس ناصرالملک نے وزارت دفاع کے نمائندے کو سخت جھاڑ پلادی اور ریمارکس دئیے ہیں کہ وزارت دفاع کی عدالت کیساتھ معاونت یہ ہوگی کہ وہ بتادے کہ لاپتہ افراد کہاں ہیں؟ لاپتہ شخص کے معاملے کو نامکمل نہیں چھوڑ سکتے‘ دو ٹھوس ثبوت موجود ہیں‘ وزارت دفاع نے پہلے سندھ ہائیکورٹ میں بیان دیا تھا کہ محمد جمیل ایک حساس ادارے کے تحت حراستی مرکز میں ہے اب اس بات سے مکمل انکاری ہیں‘ رپورٹ وزارت دفاع نے دی ہے اور یہاں کہا جارہا ہے کہ حراستی مراکز بارے وزارت دفاع کو سرے سے معلوم ہی نہیں ہے‘ دو سے تین ہفتے نہیں دے سکتے جبکہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے ہیں‘ جانتے ہیں کہ لاپتہ افراد کیا ہورہا ہے؟ وزارت دفاع کے نمائندے ہوکر یہ پتہ بھی نہیں کہ فہرست کس نے دی تھی جب آپ کو حقائق معلوم نہیں ہیں تو پھر عدالت کیا لینے آئے ہیں‘ محمد جمیل کا پتہ کرکے دیں کہ وہ حراستی مرکز میں ہے اور اس کا انچارج کون ہے جبکہ عدالت نے راولپنڈی سے لاپتہ مدثر اقبال کیس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل طار ق کھوکھر کو ہدایت کی ہے کہ لاہور میں ایف آئی اے کے جس سنٹر میں مدثر اقبال سمیت دیگر لوگوں کو رکھا گیا تھا اس کے انچارج کو 28 جنوری کو عدالت میں ذاتی طور پر پیش کیا جائے اور مدثر اقبال کی والدہ کے بیان حلفی کی روشنی میں کارروائی کرکے رپورٹ دی جائے اور لاپتہ جمیل کی حوالے سے وزارت دفاع سے جواب طلب کیا ہے۔

(جاری ہے)

جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے پیر کے روز مقدمات کی سماعت کی۔ اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر اور آمنہ مسعود جنجوعہ پیش ہوئیں۔ محمد جمیل لاپتہ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے رپورٹ پوچھی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق نے بتایا کہ رپورٹ موجود ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ حتمی رپورٹ مانگی گئی تھی۔ اے جی طارق کھوکھر نے بتایا کہ آئی ایس آئی‘ ایم آئی اور فوج سے کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے معلومات کی تفصیل کیساتھ تحقیقات کی جائیں۔

بتایا گیا ہے کہ ان کے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے۔ پولیس رپورٹ موجود ہے‘ کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکلا لیکن حساس ادارے کے ملوث ہونے کا کہا گیا ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ یہ رپورٹ کوئی بیان تو نہیں ہے۔ جس لاپتہ کے مقدمے میں ایم آئی‘ آئی ایس آئی‘ فوج اور پولیس مبینہ طور پر ملوث ہوں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انہیں لاپتہ شخص کے بارے معلوم نہ ہو۔

ہمیں مثبت جواب چاہئے‘ روز روز اس طرح کے معاملات کی سماعت نہیں کرسکتے۔ اے جی نے بتایا کہ ان کے پاس صرف ایک صفحے کا جواب ہے اور کچھ معلومات نہیں ہیں۔ حراستی مراکز میں نہیں ہے۔ عدالت نے 22 اکتوبر 2013ء کا آرڈر پڑھنے کیلئے کہا تو طارق کھوکھر نے آرڈر پڑھ کر سنایا۔ جسٹس ناصرلاملک نے کہا کہ اس آرڈر میں حساس ادارے نے موجودگی کا اعتراف کیا اور اس حوالے سے اس نے مزید معلومات دینا تھیں۔

یہ جواب انہوں نے کمیشن کو بھی دیا تھا‘ حتمی اطلاع ہے کہ یہ حساس ادارے کے پاس ہے۔ اب وہ کیسے اس سے انکار کرسکتے ہیں۔ اے اے جی نے بتایا کہ لاپتہ نوجوان کے موبائل فون سے پتہ چلا تھا کہ یہ حساس ادارے کے پاس ہے‘ حساس ادارے سے رباطہ کیا تھا وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایسا معاملہ نہیں آیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ کمیشن میں کوئی اور معاملہ تھا۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے بتایا کہ سندھ ہائیکورٹ میں وزارت دفاع نے بتایا کہ جیل حراستی مرکز میں ہے لیکن نام تو موجود ہے حراستی مرکز کا پتہ نہیں ہے۔ گذشتہ سال اکتوبر میں یہ فہرست دی گئی تھی۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ آپ بہتر طور پر جانتے ہیں پھر یہ کیوں نہیں مل رہا۔ پہلے بتایا گیا تھا کہ یہ جمیل مل چکا ہے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہاکہ جب وزارت دفاع خود اعتراف کررہی ہے کہ فہرست میں جمیل کا نمبر 37 ہے اب وہ اختلافی رپورٹ کیوں دے سکتے ہیں؟ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کے پی کی میں حراستی مراکز کا انچارج کون ہے۔

اے جی نے بتایا کہ وہ سپرنٹنڈنٹس کے تحت ہوتے ہیں۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ حراستی مراکز آئی جی جیل خانہ جات کے تحت نہیں ہوتے۔ آپ فہرست کو جانتے ہیں کس نے یہ فہرست مرتب کی ہے اس کے بارے میں بتائیں ہم اس سے پوچھیں گے؟ اے اے جی نے کہا کہ کچھ وقت دیں وہ وزارت دفاع کے نمائندے سے معلومات کرکے بتاتے ہیں۔ عدالت نے مدثر اقبال کیس کی بھی سماعت کی۔

آمنہ مسعود نے بتایا کہ بیان حلفی موجود ہیں۔ تفصیل سے معلومات دی ہیں۔ حراستی مرکز میں اس نے ہڑتال بھی کی تھی۔ ایف آئی اے کا مال روڈ پر سنٹر ہے اس میں موجود ہے۔ عدالت نے کہا کہ مزید تفصیل دی ہے۔ آمنہ مسعود نے کہا کہ ریگل چوک کے قریب سنٹر ہے۔ اے اے جی نے بتایا کہ ٹمپل روڈ پر یہ سنٹر ہے اور اب یہ کام نہیں کررہا۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ کبھی تو یہ کام کررہا تھا۔

اے اے جی نے کہا کہ والدہ مدثر اقبال نے بتایا تھا۔ میں نے کہا کہ حتمی معلومات دیں۔ عدالت نے پوچھا کہ یہ کب معلومات ملی تھیں؟ آمنہ مسعود نے بتایا کہ والدہ جانتی ہیں۔ والدہ نے بتایا کہ پریشانی تھی تو ٹیلیفون کال ایک سال قبل آئی تھی‘ اسلام آباد لے گئے تھے پہلے لاہور میں تھا۔ اے اے جی نے بتایا کہ جیسے ہی ایف آئی اے کو اس معاملے کا پتہ چلا تھا۔

انہوں نے اس کو فوری طور پر بند کردیا تھا۔ ایف آئی اے کے تحت ہی یہ ادارہ تھا۔ ایک شخص مسجد میں مدثر اقبال کی والد سے ملا تھا اس نے یہ معلومات دی تھیں کہ وہ لاہور کی ایک عمارت میں ہے۔ عدالت نے کہا کہ اس وقت کے انچارج کے بارے میں معلومات حاصل کرکے عدالت کو دی جائیں تبھی کچھ معلوم ہوسکے گا۔ عدالت نے حکم نامہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ مدثر اقبال کی والدہ عدالت میں پیش ہوئیں اور بیان حلفی جمع کرادیا کہ اسے بتایا گیا تھا کہ مدثر اقبال ایف آئی اے کے ایک سنٹر میں تھا جس میں اور لوگ بھی تھے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایاکہ ایک دہشت گردی کا حملہ ہوا تھا جس کے بعد یہ سنٹر بند کردیا گیا تھا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل پتہ چلائیں کہ ایف آئی اے سنٹر کا انچارج کون تھا۔ مدثر اقبال اور دیگر لوگ کہاں لے جائے گئے ہیں۔ عدالت کو انچارج کا نام بتایا جائے۔ انچارج کو اگلی سماعت پر عدالت میں حاضر کیا جائے۔ عدالت نے مزید سماعت 28 جنوری تک ملتوی کردی۔

بیان حلفی کی روشنی میں کارروائی کی جائے۔ مدثر اقبال کو اے آر بازار راولپنڈی کی حدود سے 2011ء میں اٹھایا گیا تھا جبکہ حافظ محمد جمیل کو لاہور سے اٹھایا گیا۔ محمد عرفان نے وزارت دفاع کی طرف سے پیش ہوکر بتایا کہ جو میرے علم میں تھا ہم نے رپورٹ دی ہے۔ ہم نے کمیشن کی معاونت کی تھی۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ تب ہی معاونت ہوئی جب آپ بتائیں گے کہ یہ بندہ کہاں ہے۔

عدالت نے عرفان سے پوچھا کہ آپ کے روبرو کمیشن میں بیان ریکارڈ کیا گیا تھا۔ عدالت نے عرفان سے پوچھا کہ آپ کے روبرو کمیشن میں بیان ریکارڈ کیا گیا تھا۔ عرفان نے کہا کہ غلام عباس لیفٹیننٹ کرنل نے بیان دیا تھا اب معلوما نہیں کہ وہ کام کررہے ہیں کہ نہیں۔ ہم نے ان سے بیان کی بابت پوچھا تھا۔ والد کے کہنے پر ہم نے کہا تھا۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ ان کا واضح بیان ہے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ میں دی گئی فہرست میں بھی اس کا نام ہے۔ عرفان نے بتایا کہ ان کو اس فہرست کا پتہ نہیں۔ اس پر جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ آپ اچھے وزارت دفاع میں کام کررہے ہیں کہ آپ کو فہرست کا پتہ ہی نہیں جب آپ کو حقائق بارے معلوم ہی نہیں ہے تو آپ عدالت کیا لینے آئے ہیں؟۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ ہمارے سامنے دو واضح حقائق موجود ہیں۔

عرفان نے کہا کہ حراستی مراکز ہمارے زیر اثر ہیں۔ پاٹا اور فاٹا میں یہ حراستی مراکز کام کررہے ہیں۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ یہ حراستی مراکز آپ کی پہنچ سے باہر ہیں‘ حقائق کیا ہیں یہ تو ہمیں معلوم نہیں مگر بیان واضح ہے۔ یہ بیان کے پی کے کے گورنر نے نہیں دیا بلکہ وزارت دفاع نے دیا ہے‘ ہمیں اس بیان کی بابت بتایا جائے۔ عرفان نے کہ اکہ دو سے تین ہفتے دے دیں۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ جو کچھ ہورہا ہے ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ کیا آپ کے رابطے اتنے ہی کمزور ہیں کہ آپ کو اتنا وقت دیا جائے۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ آپ کو اغواء برائے تاوان کا نہیں کہہ رہے۔ ہم تو حراستی مرکز سے معلومات کا پوچھ رہے ہیں۔ عرفان نے کہا کہ مناسب وقت دیں۔ جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ یہ ایک منٹ کا معمالہ ہے۔ حراستی مرکز میں بندہ موجود ہے۔

آپ کو پتہ ہی نہیں ہے۔ حساس ادارے جو بھی افراد رہا کرتے ہیں ان کی بھی سالہا سال نگرانی کی جاتی ہے۔ عرفان نے کہا کہ یہ کے پی کے کا معاملہ نہیں ہے آپ کو بتانا ہوگا۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ سندھ ہائیکورٹ میں وزارت دفاع نے 700 زیر حراست افراد کی فہرست دی تھی اور اس فہرست میں جمیل کا نام 70 ویں نمبر پر تھا اس پر عدالت نے وزارت دفاع سے جواب طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت20 جنوری تک ملتوی کردی۔