اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین نادرا طارق ملک کی برطرفی کالعدم قرار دے دی‘ بحالی کا نوٹیفکیشن جاری،عدالت نے حکم امتناعی دے کر فیصلہ 12 دسمبر کو محفوظ کرلیا تھا،چھٹیوں پر تھا‘ اسلام آباد آنے پر پتہ چلا کہ بڑی تبدیلی آچکی ہے‘ جسٹس نورالحق کے ریمارکس، عہدے سے استعفیٰ اٹل ہے ،موجودہ حکمرانوں کے ساتھ نہیں چل سکتا، طارق ملک ،سرکاری ملازموں کے ساتھ ذاتی ملازم جیسا سلوک زیب نہیں دیتا،میڈیا سے گفتگو

منگل 14 جنوری 2014 07:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14جنوری۔ 2013ء) اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین نادرا طارق ملک کی تقرری کو درست قرار دیتے ہوئے ان کی برطرفی کو کالعدم قرار دے دیا‘ عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ 12 دسمبر کو محفوظ کرلیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق چیئرمین نادرا طارق ملک کی تعیناتی کو وفاقی حکومت نے غیرقانونی قرار دیا تھا جس پر چیئرمین نادرا نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس نورالحق نے کی تھی۔

دونوں فریقین کی جانب سے دلائل سننے کے بعد عدالت نے 3 دسمبر کو برطرفی کیخلاف حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ پیر کے روز عدالت نے چیئرمین نادرا طارق ملک کی برطرفی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی چیئرمین نادرا کے عہدے پر بحالی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

(جاری ہے)

عدالتی فیصلے کے دوران جسٹس نورالحق قریشی نے ریمارکس دئیے کہ میں چھٹیوں پر تھا‘ اسلام آباد آنے پر پتہ چلا کہ بڑی تبدیلی آچکی ہے‘ فیصلہ پہلے محفوظ کررکھا تھا۔

یاد رہے کہ چیئرمین نادرا اب خود ہی عہدے سے مستعفی ہوچکے ہیں۔ادھرنادرا کے سابق چیئرمین طارق ملک نے کہا ہے کہ عہدے سے استعفیٰ اٹل ہے ،موجودہ حکمرانوں کے ساتھ نہیں چل سکتا،سرکاری ملازموں کے ساتھ ذاتی ملازم جیسا سلوک زیب نہیں دیتا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے چیئرمین نادرا کے عہدے پر بحالی کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے رد عمل میں انہوں نے کہا کہ عدالت نے میرا موقف درست قرار دیا ہے ،ضمیر مطمئن ہے ،اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا تھا، حکومت کے وقت کے ساتھ کام کرنا ناممکن ہو کر رہ گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ادارے کی بہتری کے لئے کام کیا اور اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا۔ طارق ملک نے کہا کہ میں نے استعفیٰ بھی ادارے کے بہترین مفاد میں دیا اور یہ استعفیٰ واپس لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نادرا میں نوکری سمجھ کر نہیں بلکہ مشن سمجھ کر کام کیا تھا۔سرکاری افسروں کے ساتھ ذاتی ملازم جیسا سلوک زیب نہیں دیتا ،ایسا نہیں ہونا چاہیے

متعلقہ عنوان :