قومی اسمبلی کی صنعت و پیداوار کمیٹی کا کھاد کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ پر اظہار تشویش، وزارت سے 2009ء سے لیکر اب تک کھاد تیار کرنے والی کمپنیوں کے سالانہ منافع کا ریکارڈ طلب کرلیا

منگل 14 جنوری 2014 07:23

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14جنوری۔ 2013ء)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار نے ملک میں کھاد کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزارت سے 2009ء سے لیکر اب تک کھاد تیار کرنے والی کمپنیوں کے سالانہ منافع کا ریکارڈ طلب کرلیا ۔ کمیٹی نے پاکستان سٹیل ملز کے ملازمین کو فوری تنخواہیں ادا کرنے کے کی بھی تجویز دی ہے اس کے علاوہ کمیٹی نے وزارت سے آٹو موبائل اور شوگر ملوں کو ملنے والی سبسڈی کے بارے میں سمری کی تیاری کے مراحل کی بھی تفصیلات طلب کرلی ہیں ۔

قائمہ کمیٹی کا اجلاس پیر کے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں چیئرمین اسد عمر کی زیر صدارت ہوا جس میں ملک میں کھادوں ا ور بجلی کی پیداوار اور قیمتوں کے علاوہ دیگر معاملات پر غور وحوض کیا گیا ۔

(جاری ہے)

ایڈیشنل سیکرٹری وزارت صنعت و پیداوار خضر حیات خان نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک میں کھاد کی قیمتوں میں اضافہ عالمی منڈی میں اضافے کی وجہ سے ہے اس کے علاوہ حکومت نے کھادوں کی تیاری پر مقامی صنعت کو ملنے والی سولہ فیصد سبسڈی بھی واپس لے لی جس کی وجہ سے 180روپے فی بوری کھاد کی قیمت میں اضافہ ہوگیا تاہم حکومت نے کسانوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے تین کمیٹیاں قائم کی ہیں لیکن تاحال اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا ۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت کے فیصلے کے تحت ایک ماہ کے اندر پچاس ہزار ٹن چینی برآمد کی جاچکی ہے اور افغانستان کو برآمد کی جانے الی چینی پر بھی دیگر ممالک کے برآمدکنندگان کو ملنے والے فائدے کا معاملہ بھی زیر غور ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ یوریا اور چینی پر سبسڈی کیلئے دو یا تین وزارتیں بھی ملوث ہوتی ہیں ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان سٹیل ملز کا حال بہت خراب ہے اور اس وقت سٹیل ملز دس فیصد گنجائش سے بھی کم پر کام کررہی ہے سٹیل ملز میں سترہ ہزار ملازمین ہیں جبکہ ایسی ہی سٹیل ملز کو ایران میں سات ہزار ملازمین چلا رہے ہیں ۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ شوگر ملوں کی جانب سے بجلی کی پیداوار اس لئے شروع نہ ہوسکی کیونکہ حکومت نے ان سے بجلی خریدنے کی کوئی یقین دہانی نہیں کرائی تھی اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی دلچسپی ظاہر کی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی صنعتی پالیسی کا مسودہ تیار ہوچکا ہے اس کے علاوہ ہری پور کے علاقے میں ماربل سٹی قائم کرنے پر بھی غور کررہی ہے ۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان سٹیل ملز اوردیگر ادارے تباہ ہوئے کیونکہ ان اداروں بورڈ آف ڈائریکٹر اور چیف ایگزیکٹو سیاسی بنیادوں پر تعینات کئے گئے جس کی وجہ سے یہ ادارے تباہ ہوگئے ۔ جس پر کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ سٹل ملز کے ملازمین کو تین مہینے سے تنخواہیں نہیں ملیں اس لئے ان کی تنخواہیں فوری طور پر ادا کی جائیں ۔

متعلقہ عنوان :