آئین کے آرٹیکل 23 اور 24 کے تحت شہریوں کی اراضی کا تحفظ ریاست کا فرض ہے مگر ایسا نہیں کیا جارہا ہے ۔ صدیوں سے رہنے والے لوگوں کی زمین سرکار کسی اور کو دے دیتی ہے عدالت کسی بھی غیر قانونی حکم کو کالعدم قرار دینے کا مکمل اختیار رکھتی ہے ۔ قانون کہتا ہے کہ اگر وفاق کو سڑکیں یا دیگر معاملات کے لیے اراضی کی ضرورت پڑے گی تو ایسی صورت میں صوبائی حکومت سے اجازت لینا پڑے گیا ۔1961ء کے مقدمے میں بھی ابھی تک زیر سماعت ہیں ان کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں ،جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس

جمعرات 16 جنوری 2014 04:12

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16جنوری۔2013ء) سپریم کورٹ میں اراضی اور دیگر مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 23 اور 24 کے تحت شہریوں کی اراضی کا تحفظ ریاست کا فرض ہے مگر ایسا نہیں کیا جارہا ہے ۔ صدیوں سے رہنے والے لوگوں کی زمین سرکار کسی اور کو دے دیتی ہے عدالت کسی بھی غیر قانونی حکم کو کالعدم قرار دینے کا مکمل اختیار رکھتی ہے ۔

قانون کہتا ہے کہ اگر وفاق کو سڑکیں یا دیگر معاملات کے لیے اراضی کی ضرورت پڑے گی تو ایسی صورت میں صوبائی حکومت سے اجازت لینا پڑے گیا ۔1961ء کے مقدمے میں بھی ابھی تک زیر سماعت ہیں ان کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے یہ ریمارکس انجینئر جمیل احمد ملک کی درخواست کی سماعت کے دوران دیئے ہیں جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز درخواست کی سماعت کی ۔

(جاری ہے)

درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے پچیس سال قبل ان کی اراضی لی اب تک اس حوالے سے ان کو نہ تو قیمت ادا کی گئی اور نہ ہی متبادل اراضی دی گئی ہے پچیس سال سے عدالتوں کے دھکے کھارہے ہیں جوانی تک چل گئی ہیں اس پر جسٹس جود ایس خواجہ نے برجستہ کہا کہ آپ تو ابھی بھی جوان ہیں کون کہتا ہے کہ آپ کی جوانی چلی گئی ہے ہمارے پاس اس طرح اور بھی مقدمات ہیں چاہتے ہیں کہ ان کا بھی کوئی حل نکالا جائے ایک مقدمہ کی سماعت ہم نے تین ہفتوں کیلئے ملتوی کررکھی ہے اس پر درخواست گزار کا کہنا تھا کہ انہیں تو عدالتی حکم سے مطلب ہے وہ عدالت جاری کرے ۔ان کے وکیل دوسرے بینچ میں ایک مقدمے کی سماعت میں دلائل دے رہے ہیں اس پر عدالت نے سماعت ملتوی کردی ۔

متعلقہ عنوان :