پی اے سی کا اسٹیبلشمنٹ ڈو یژن کی جانب سے بعض کیسز کا ریکارڈ پیش نہ کیے جانے پر برہمی کا اظہار، ریکارڈ جان بوجھ کر جلا دیا جاتا ہے،، ریکارڈ نہ ہونا مجرمانہ غفلت ہے، رولنگ دینے کا فیصلہ، 37 ارب کا منصوبہ 200ارب میں مکمل کرنا قوم پرظلم کے مترادف ہے،خورشید شاہ، تمام تاخیری منصوبوں کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت،گیس ختم ہونے کو ہے مگر بلوچوں کا 80فیصدعلاقہ محروم ہے، سندھ سے بھی ایسا ہی سلوک ہورہاہے، پاکستا ن پر رحم کیا اورتمام صوبوں کو یکساں رائلٹی فراہم کی جائے،محمود اچکزئی

جمعہ 17 جنوری 2014 07:25

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17جنوری۔2014ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی )نے اسٹیبلشمنٹ ڈو یژن کی جانب سے بعض کیسز کا ریکارڈ پیش نہ کیے جانے پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ ریکارڈ جان بوجھ کر جلا دیا جاتا ہے،، ریکارڈ نہ ہونا مجرمانہ غفلت ہے،اس پر رولنگ دیں گے جبکہ بیوروکریسی کی موناٹائزیشن پالیسی پر آڈٹ حکام نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اس پالیسی کا غلط استعمال ہو رہا ہے، جس پر تمام محکموں سے گاڑیوں و اخراجات کی تفصیلات طلب کرلی گئی ہیں، سید خورشید شاہ نے اسلام آباد نیو ائرپورٹ کی تعمیر میں تاخیر پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ 37 ارب کا منصوبہ 200ارب میں مکمل کرنا قوم پرظلم کے مترادف ہے، تمام تاخیری منصوبوں کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں پیش کی جائیں، کمیٹی کی قدرتی وسائل پر انہی صوبوں کو اولیت نہ دینے پر بھی اظہار تشویش جبکہ محمود اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان کی گیس ختم ہونے کو ہے، مگر بلوچوں کا 80فیصدعلاقہ محروم ہے، سندھ سے بھی ایسا ہی سلوک ہورہاہے، خیبرپختونخواہ کی بجلی بھی وہاں کے عوام کو مہنگی دی جاتی ہے ، پورا ملک جل رہاہے ، پاکستا ن پر رحم کیا جائے ،تمام صوبوں کو یکساں رائلٹی فراہم کی جائے۔

(جاری ہے)

جمعرات کے روز پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سید خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں اراکین کمیٹی،آڈٹ حکام ، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، کیبنٹ ڈویژن، وزارت قانون اور وزارت پٹرولیم کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزارت پٹرولیم، کیبنٹ ڈویژن و دیگر محکموں کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیاگیا۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سید خورشید شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جوکہ مسلسل چھ گھنٹے جاری رہا۔

اجلاس کے آغاز میں اراکین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سانحہ نوابشاہ پر افسوس کا اظہار کیا اور دعائے مغفرت کی جبکہ اس کے بعد اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی تو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حکام وفاقی وزراتوں و ڈویژنوں میں افسران کے زیر استعمال سرکاری گاڑیوں اور پٹرول کی مد میں وصول کئے جانیوالے بلوں بارے اراکین کو مطمئن نہ کرسکے۔ چیئرمین سید خورشید شاہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ وفاقی وزارتوں و ڈویژنوں میں تعینات افسران پٹرول کے بل بھی وصول کررہے ہیں اور سرکاری گاڑیاں بھی استعمال کررہے ہیں۔

انہوں نے ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں تمام وزارتوں و ڈویژنوں میں افسران کے زیر استعمال گاڑیوں اور پٹرول کی مد میں وصول کی جانیوالی رقم کی مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں ۔ علاوہ ازیں مالی سال 1998-99 کے وزارت ماحولیات و دیہی ترقی بارے آڈٹ اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے متعلقہ حکام نے کہاکہ 13 جنوری 2002ء کو شہید ملت سیکرٹریٹ اور بعد میں تین جولائی 2007ء کو سی ڈی اے بلاک نمبر4 میں آگ لگنے کے باعث وزارت ماحولیات کا مکمل ریکارڈ جل کر خاکستر ہوگیاجس کی وجہ ے آڈٹ اعتراضات کا جواب دینے سے قاصر ہیں جبکہ اس پر اراکین کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ کرپشن کو چھپانے کیلئے سرکاری ریکارڈ کو آگ لگ جانا بہترین بہانہ ہے۔

علاوہ ازیں آڈٹ اعتراضات پرپبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے مالی سال 1998-99 کے دوران وزارت ماحولیات کی ذیلی کمیٹی کے افسران و ملازمین کو بطور بونس ادا کی گئی 7لاکھ روپے کی رقم واپس لینے کی ہدایت کی کیونکہ 1998-99 میں کمیٹی خسارے میں تھی مگر اس کے باوجود افسران و ملازمین کو خلاف قاعدہ بونس ادا کیاگیا پاکستان سٹیٹ آئل بارے 1998-99 کے آڈٹ اعتراض پر ایم ڈی پی ایس او نے بتایا کہ کراچی میں گیلانی ٹریڈرز سے پلاٹ لیز پر لیاگیا جس کیلئے اس وقت کے ایم ڈی امجد حسین کے حکم پر 36 لاکھ روپے بھی کمپنی کو ادا کردیئے گئے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ مذکورہ پلاٹ نہ تو کمپنی کی ملکیت تھا نہ کمیٹی کے پاس پلاٹ کا قبضہ تھا جس پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے مذکورہ معاملہ نیب کے پاس تحقیقات بھجوانے کا فیصلہ کیا۔

سوئی نادرن گیس پائپ لائنز کے حوالے سے آڈٹ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے عارف حمید نے کہاکہ مالی سال 1998-99 سے ایک ارب پانچ کروڑ روپے غیر وصول شدہ واجبات چلے آرہے تھے جس میں 30 کروڑ روپے کی وصولیاں ہوئی ہیں جبکہ بقیہ بھی آہستہ آہستہ وصول کریں۔ ایک اور آڈٹ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ایم ڈی سوئی نادرن پائپ لائنز لمیٹڈ نے کہاکہ 1998-99 میں لاہور میں 9 سٹیل ری رولنگ ملز کی گیس چوری پکڑی گئی تھی جبکہ ان کے ذمے 9 کروڑ 51 لاکھ روپے کے واجبات ہیں جوکہ تاحال وصول نہیں ہوئے ۔

سیکرٹری پٹرولیم و قدرتی وسائل عابد سعید کا اس حوالے سے جواب تھاکہ ٹیکس چوری کنٹرول ایکٹ 2013ء وفاقی کابینہ کو بھجوا چکے ہیں جس کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد گیس چوروں پر ہاتھ ڈالنا ممکن ہوگا۔ اس پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نے ایم ڈی سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کو ہدایت کی کہ مذکورہ سٹیل ری رولنگ ملز جس زمین پر تعمیرکی گئی تھی اس کے موجودہ سٹیٹس کی تفصیلات فراہم کی جائیں علاوہ ازیں اراکین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے 1998-99 میں گیس انفراسٹریکچر ڈویلپمنٹ سرچارج کی رقم صوبوں کو نہ ادا کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیاجبکہ سیکرٹری پٹرولیم کو ہدایت کی کہ وزارت قانون سے رائے لے کر اس حوالے سے مفصل رپورٹ ایک ماہ کے اندر جمع کرائیں۔

پی ایس او کے حوالے سے آڈٹ اعتراض کی سماعت کے دوران چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سید خورشیدشاہ کا کہنا تھا کہ پی ایس او کی پائپ لائنوں سے سالانہ 50 کروڑ روپے کا تیل چوری ہوتاہے ڈپٹی آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے آڈٹ اعتراض کے حوالے سے کہاکہ 1998-99 میں ملتان (شیر شاہ) اور محمود کوٹ میں پی ایس او کے ڈپوؤں سے چھ لاکھ کے ایک واؤچر پر دو مرتبہ تیل دینے اور ایک دوسرے واقعہ میں پانچ لاکھ کے واؤچر کو پچاس لاکھ کا تیل دینے کے واقعات ہوئے جبکہ اس کی انکوائری درست طریقے سے نہیں ہوئی۔

جس پر اراکین نے کہاکہ یہ سیدھا سیدھا فراڈ کیس ہے اور نیب کو بھجوایا جائے تاہم سیکرٹری پٹرولیم کی درخواست پر چیئرمین سید خورشید شاہ نے وزارت پٹرولیم کو اس معاملے کی انکوائری کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ علاوہ ازیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سیکرٹری پلاننگ ڈویژن کو ہدایت کی ہے کہ وفاقی حکومت کے ایسے تمام ترقیاتی منصوبوں کی تفصیل پیش کی جائے جو مقررہ مدت کے دورانم مکمل نہیں ہوئے اور انکی لاگت بڑھ گئی۔

قبل ازیں سیکرٹری ایوی ایشن نے بے نظیر انٹرنیشنل ائرپورٹ اسلام آباد بارے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ اس کی منظوری وزیراعظم نے 2004 میں جبکہ اس نے 37 ارب روپے کی لاگت میں 2013ء میں مکمل ہونا تھا مگر اب 2016ء کے آخر میں مکمل ہونے کا امکان ہے جبکہ اس کی لاگت بڑھ کر 95 ارب روپے ہوگئی اور اس میں مزیداضافے کا امکان اہے جس پر چیئرمین سید خورشید شاہ نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ قوم کے ساتھ ظلم ہے اور یہ منصوبہ 200 ارب تک پہنچ گیاہے۔

علاوہ ازیں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے رکن محمود خان اچکزئی نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت گیس پر صوبوں کو یکساں رائلٹی دے بلوچستان کی گیس ختم ہونے والی ہے مگر اب بھی بلوچستان کے 85 فیصدعلاقے گیس کی سہولت سے محروم ہیں خیبرپختونخواہ سے پیدا ہونے والی بجلی پر پچاس پیسے فی یونٹ لاگت آتی ہے جبکہ وہاں کے لوگ 8 روپے فی یونٹ کے حساب سے بھی ادا کرتے ہیں۔

بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخواہ سے نکلنے والی گیس پر بھی پنجاب سے نکلنے والی گیس کے برابر رائلٹی ادا کی جائے۔ انہوں نے کہاکہ صوبوں کا احساس محرومی ختم کیاجائے، بلوچی پریشان اور سندھ بپھرا ہواہے یکساں حقوق فراہم کرکے ملک کو مشکلات سے نکالا جاسکتاہے کیونکہ پاکستان اب مزید کسی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا پورا ملک جل رہاہے کراچی سے خیبر تک آگ لگی ہوئی ہے پاکستان پر رحم کیا جائے۔