پاکستان کی امداد شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کی جا ئے، امریکی کانگریس میں بل پیش ،شکیل آفریدی کی رہائی اور اسامہ بن لادن کی تلاش میں ان پر امریکہ کی مدد کرنے سے متعلق عا ئد الزامات واپس لیے جانے کی ضمانت ملنے تک پاکستان کو تین کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی امداد نہ دی جا ئے ، امریکی اہل کاروں کے لیے پاکستانی ویزوں میں بھی کسی طرح کی پابندی نہیں ہونی چاہیے، بل میں مطا لبہ ، امریکی وزیر خارجہ کو پاکستان کی جانب سے القاعدہ ، تحریکِ طالبان ، حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوری کے خلاف کارروائی اور افغا نستا ن میں طا لبا ن کے حملے رکوانے بارے تعا ون کی یقین دھا نی بھی کرانی ہو گی ، امریکی اراکین کا نگریس

جمعہ 17 جنوری 2014 07:26

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17جنوری۔2014ء )پاکستان کی امداد شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کرنے کا بل امریکی کانگریس میں پیش کردیا گیا ہے۔ کانگریس میں پیش کیے جانے والے بجٹ مسودے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لیے دی جانیوالی والی رقم میں سے تین کروڑ 30 لاکھ ڈالر اس وقت تک روک لیے جائیں جب تک پاکستا ن ڈاکٹر شکیل آفریدی کو جیل سے رہا نہ کر دے۔

امر یکی ذرائع ابلا غ کے مطا بق کانگریس میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹس ارکان کی رضامندی سے تیار کیے گئے بجٹ کے مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے جب تک کانگریس کو امریکی وزیرِ خارجہ کی طرف سے یہ ضمانت نہیں مل جاتی کہ ڈاکٹر آفریدی کو جیل سے رہا کر دیا گیا ہے تب تک یہ رقم جاری نہیں کی جائے گی۔اس کے علاوہ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی پر اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکہ کی مدد کرنے سے متعلق جو بھی الزامات ہیں وہ واپس لیے جائیں۔

(جاری ہے)

واضع رہے کہ ڈاکٹر آفریدی کا رہائی کا معاملہ امریکی کانگریس اور میڈیا میں پہلے بھی اٹھتا رہا ہے اور پاکستانی حکام سے ملاقاتوں میں بھی امریکی انتظامیہ انہیں جلد سے جلد رہا کرنے کے لیے دباوٴ ڈالتی رہی ہے۔اکتوبر 2013 میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ کے دوران امریکی ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ ایڈ روئس نے ان پر زور دیا تھا کہ وہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کر دیں۔

اس وقت پشاور کی جیل میں قید ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ابتدائی طور پر دو مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے 20 دن بعد اسامہ کی تلاش یا ان کی نشاندہی کے لیے امریکی حکام کی ایما پر ایبٹ آباد میں ویکسین دینے کے لیے ایک فرضی مہم شروع کرنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔تاہم بعد ازاں خیبر ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے انھیں شدت پسندوں کے ساتھ روابط اور غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں سے تعلقات اور اطلاعات فراہم کرنے کے الزامات پر 33 سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی تھی۔

امریکی بجٹ کے مسودے میں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والے اخراجات کی ادائیگی کی مدت کو ایک سال کے لیے بڑھانے کا بھی ذکر ہے تاہم پاکستان کو واپس کی جانیوالی رقم جاری کرنے کے لیے کچھ اور بھی شرائط بھی رکھی گئی ہیں۔ان شرائط کے تحت امریکی وزرائے خارجہ و دفاع کو کانگریس کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ پاکستان القاعدہ ، تحریکِ طالبان پاکستان ، حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوری کے خلاف کارروائی میں کیا مدد کر رہا ہے۔

انہیں کانگریس کو یہ یقین بھی دلانا ہوگا کہ پاکستان اپنی سرزمین سے امریکی یا افغان فوج پر ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے کارگر قدم اٹھا رہا ہے۔ایک شرط یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کام کرنے والے امریکی اہل کاروں کے لیے پاکستانی ویزوں میں بھی کسی طرح کی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔یہ تمام شرائط کے مکمل ہونے کی ضمانت بھی امریکی وزرا کو کانگریس کے سامنے دینی ہوگی اور ان سے کہا گیا ہے کہ اگر انھیں ایسا محسوس ہو کہ پاکستان یہ شرائط پوری نہیں کر رہا تو اس کی امداد فوراً روک دی جائے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اس طرح کی شرائط کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کی طرح دیکھتا ہے اور لیکن گذشتہ کئی ماہ سے امریکہ میں یہ سوچ مضبوط ہو رہی ہے کہ پاکستان ہو یا افغانستان امریکہ سے جانے والی امداد کا مکمل حساب رکھا جانا چاہیے۔مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں جو کشیدگی پہلے سے موجود ہے اس میں اس طرح کی شرائط سے مزید اضافہ ہی ہوگا۔