بلوچستان سے گرفتار و لاپتہ افراد کے لواحقین پیدل لانگ مارچ کرتے ہوئے پنجاب میں داخل ، روجھان مزاری میں سیاسی جماعتوں سول سوسائٹی و عوام کی جانب سے والہانہ استقبال

اتوار 19 جنوری 2014 06:39

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19جنوری۔2014ء) بلوچستان سے ماورائے آئین و قانون گرفتار و لاپتہ کئے جانے والے افراد کے لواحقین پیدل لانگ مارچ کرتے ہوئے پنجاب میں داخل ہوگئے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے پیدل مسافت کے دکھ کو جھیلنے والوں کو روجھان مزاری میں سیاسی جماعتوں سول سوسائٹی و عوام کی جانب سے والہانہ استقبال کیا گیا سندھ اور پنجاب کی سرحد پر جئے سندھ قومی محاذ کے کارکنوں نے اس لانگ مارچ کے شرکا کو الوداع کیا، وائس فار مسنگ پرسنز کے نائب چیئرمین اور مارچ کے روح رواں عبدالقدیر بلوچ نے اس موقعے پر سندھ کے لوگوں اور قوم پرست جماعتوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی پر شکریہ ادا کیا۔

کراچی سے چھتیس روز کا پیدل سفر کر کے یہ مارچ ہفتہ کو پنجاب میں داخل ہوا ہے۔

(جاری ہے)

جس سڑک پر وہ سفر کر رہے ہیں اس کے دونوں طرف ویرانی ہے اور کہیں کسی درخت کا سایہ اور ہوٹل بھی دستیاب نہیں۔ شرکا سڑک کے کنارے کچھ گھڑی آرام کرتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں، قافلے کے ساتھ صرف ایدھی ایمبولینس موجود ہے۔روجھان تحصیل کے علاقے شاہوالی میں سابق وزیر اعظم اور مزاری قبیلے کے سردار بلخ شیر مزاری کے پوتے دوست محمد مزاری نے مارچ کا استقبال کیا اور شرکا کے ساتھ تھوڑا سفر بھی کیا۔

انہوں نے شرکا کو کھانے پینے اور اوڑھنے کی کچھ اشیا دینا چاہیں لیکن مارچ کے سربراہ ماما قدیر نے انہیں قبول کرنے سے انکار کیا۔ماما قدیر بلوچ نے بتایا کہ انہوں نے انہیں کہا کہ آپ حکومت میں رہے ہو اور انہیں پارلیمانی سیاست کرنے والی کسی جماعت سے کوئی مدد نہیں چاہیے یہ ان کا اصولی فیصلہ ہے۔انہوں نے بتایا سردار شیر باز مزاری کا بھی ان کے پاس پیغام آیا تھا کہ مزاری علاقے میں وہ ان کی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام کرنا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے انہیں بھی انکار کیا ہے۔

پنجاب داخل ہونے سے پہلے ماما قدیر نہ یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ انہیں پنجاب کی حدود میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ پنجاب کی سرحد عبور کر رہے تھے تو سندھی قوم پرست اور عام شہری بڑی تعداد میں موجود تھے اس لیے وہاں موجود رینجرز اور پولیس انہیں روک نہیں سکی۔جس سڑک پر وہ سفر کر رہے ہیں اس کے دونوں طرف ویرانی ہے اور کہیں کسی درخت کا سایہ اور ہوٹل بھی دستیاب نہیں یاد رہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے تاحال ایسے کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا جس میں اس لانگ مارچ کے شرکا کو روکنے کے لیے کہا گیا ہو۔

ماما قدیر بلوچ کا کہنا ہے کہ ڈیرہ غازی خان تک تو وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کیونکہ یہاں بلوچ آبادی ہے لیکن اس سے آگے ہوسکتا ہے کہ انہیں مخالف یا مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے لیکن وہ پرعزم ہیں کہ ہر حال میں اسلام آباد پہنچے گئے۔