لاپتہ افراد کیس:عدالتی حکم پر عمل نہ ہوا تو وزیر اعظم ،وزیراعلیٰ پختونخواہ کو طلب کرینگے،سپریم کورٹ،ہمارے پاس بندوق یا چھڑی نہیں ،مگر قانون ہے ،حکومت نے عدالتی حکم پر اگر عمل نہ کیاتوہین عدالت کی کارروائی کرینگے،جسٹس جواد ایس خواجہ،کیا یہ اسلامی حکومت ہے ؟لاپتہ جوان کا والد غم سے مرگیا ،والدہ مرنے والی ہے ،فوج اور حکومت کے لوگ انسان ہیں تو انہیں سکون کی نیند کیسے آجاتی ہے؟،اگرکوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسی طرح معاملات چلتے رہیں گے تو وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہے،اب مقدمے میں مزید6 ماہ نہیں لگنے دیں گے،دوران سماعت ریمارکس ،لاپتہ افراد بارے ان کیمرہ تفصیلات دینے کو تیار ہیں،7 افراد کی تلاش جاری ہے، 100سے زائد لوگوں کو ان کے خاندانوں سے ملاقات کرادی ،اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ،مزید سماعت کل ہوگی،سپریم کورٹ نے ڈائریکٹر لیگل وزارت دفاع کو 3 فروری کو طلب کر لیا،ہر سماعت پر نئی وضاحت آجاتی ہے ،ایسا کب تک چلے گا،جسٹس ناصر الملک،وزارت دفاع بتائے لاپتہ افراد کہاں گئے،زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟حکومت احساس کرے،زیادہ دیر یہ ٹال مٹول کی پالیسی نہیں چلے گی ،عدا لت آنکھیں بند نہیں کر سکتی ،کسی کو آئین و قانون کی خلاف ورزی نہیں کرنے دیں گے،جسٹس ثاقب نثار کے دوران سماعت ریمارکس

منگل 21 جنوری 2014 05:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔21جنوری۔2013ء)سپریم کورٹ نے مالاکنڈ کے حراستی مرکز سے فوج کے ذریعے اٹھائے جانے والے35 لاپتہ افراد کی بازیابی بارے عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہونے پر وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کو بطور چیف ایگزیکٹو اور وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک کو بطور چیف ایگزیکٹو کے پی کے عدالت طلب کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے پر ذمہ داروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔

حالات واضح ہیں ۔حکومت عدالتی احکامات پر عمل نہیں کرنا چاہتی ۔ہم فوج کو نہیں بلائیں گے اس کا جواب وفاقی حکومت کو دینا پڑے گا۔ہمارے پاس بندوق یا چھڑی تو نہیں مگر آئین و قانون ہمارے پاس موجود ہے۔ شہریوں کے لاپتہ ہونے کے حوالے حکومت سمیت کوئی حکومتی ادارہ تفتیش کرنے کو تیار نہیں ہے کیا ہم جنگل میں رہ رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

کیا یہ اسلامی حکومت ہے کہ لاپتہ جوان کے غم میں والد مر گیا اور والدہ مرنے والی ہے۔

اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اسی طرح سے معاملات چلتے رہیں گے تو وہ شدید قسم کی غلط فہمی کا شکار ہے ۔اب مزید 6 ماہ اس مقدمے میں نہیں لگنے دیں گے ۔فوج اور حکومت کے لوگ اگر انسان ہیں تو انہیں لاپتہ افراد کے معاملے پر سکون کی نیند کیسے آ جاتی ہے۔حکومت ان معاملات سے چشم پوشی نہ کرے۔انسانی حقوق کے تحفظ میں حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے ۔کچھ ادارے خود کو آئین وقانون سے بالاتر سمجھتے ہیں اگر یہ قانون محض ایک کتاب ہے تو بھی حکومت ہمیں بتلا دے۔

حکومت معاملات کو جان پوچھ کر طوالت دے رہی ہے ۔حکومت مستعد ہوئی تو ہم بھی تعاون کرتے جولائی2013 سے قانون سازی کا معاملہ چل رہا ہے مگر ابھی تک اس پر عملی کارروائی نہیں کی گئی ۔فوج وفاق کے تحت کام کررہی ہے ہم تو حکومت سے ہی جواب مانگیں گے۔ عدالت نے لاپتہ افراد کی بازیابی ،ذمہ داروں کے خلاف کارروائی بارے عدالتی حکم کے عملدرآمد بارے اٹاری جنرل سلمان اسلم بٹ ،وزارت دفاع،وزیرا عظم کے سیکرٹری ،وزیر اعظم کے سیکرٹری ،وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ کے سیکرٹری سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت22 جنوری تک ملتوی کر دی ۔

پیر کے روز جب سما عت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل سلمان ا سلم بٹ پیش ہوئے تو جسٹس جواد ایس خواجہ نے خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے کیا پتہ ہے؟ابھی تک Best ہم نہیں کہہ سکتے۔یہ تو ایک کیس ہے باقی بھی مقدمات ہیں ۔شاہ خاور اور طارق کھوکھر بھی پیش ہوئے ہیں مگر حکومت کی جانب سے پیش رفت نہیں ہو رہی ہے ۔شاہ خاور نے کہا کہ کچھ کرلیا ہے جو ہونا چاہیے تھا نہیں ہو سکا ۔

اس پر ہم نے کہا کہ مزید بھی کچھ ہونا ہے۔مجھے یقین ہے کہ آپ معاملات کو دیکھیں گے ۔سرکار قانون کی پابند ہوتی ہے ،باقی بھی پابند ہونا شروع ہو جائیں گے وگرنہ کسی نے آئین و قانون نہیں ماننا۔اے جی نے کہا کہ میں نے 10 جنوری2014 کا آرڈر پڑھا ہے ۔اس میں بتایا گیا ہے کہ35 لاپتہ افراد میں سے صرف سات افراد بازیاب ہوئے ہیں ۔ ان لوگوں کو فوج نے اٹھایا ہے ۔

ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کابھی کہا گیا ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ عدالتی حکم پر کیا کہنا ہے ۔اے جی نے بتایا کہ وزارت دفاع نے عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کررکھی ہے ۔اس کے تحت اس حکم پر نظر ثانی کی جائے۔35 افراد کے حوالے سے مکمل تفصیلات دے دی گئی ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ15 لوگوں کا کہا گیا ہے کہ ان کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں ہے۔

کچھ افغانستان میں ہیں ۔یہ ہم سب دیکھ چکے ہیں۔اے جی نے کہا کہ ان لوگوں کے حوالے سے ان کیمرہ تفصیلات دینے کو تیار ہیں۔7 افراد کی تلاش جاری ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ یہ معاملہ کافی عرصہ سے چل رہا ہے ۔حکومت خود معاملات کو خراب کررہی ہے ۔حکومت مستعد ہوتی تو ہم کہتے کہ مشکلات ہیں۔جو ہونا چاہیے تو نہیں ہورہا ہے ۔کچھ چیزیں سامنے آگئی ہیں اس پر آرڈر جاری کریں گے۔

35 افراد میں سے 14 ملے ہیں باقی کہاں گئے ہیں۔ ان لوگوں کے لواحقین ہر بار عدالت میں موجود ہوتے ہیں ۔یاسین شاہ کے والد محبت شاہ ہر سماعت پر آتے رہے ہیں۔بتادیں کہ یہ شہری نہیں ہیں دوسرے درجے کے شہری ہیں ۔جواز آپ سے پوچھ لیں گے۔ مالاکنڈ کے علاقے سے ان کو اٹھایا گیا ہے ۔ہمیں بتانا پڑے گا۔کچھ تجاویز بھی آپ دیں گے کہ یہ ہوگیا ہے مزید یہ کرنا چاہیے۔

سنجیدگی کی کمی ہے ۔انسانی حقوق کے تحفظ کرنے میں حکومت ناکام ہے ۔ہم نے فاٹا ،پاٹا نہیں جانا یہ سرکار کا کام ہے۔ عدالت خود معاملے کی نذاکت سمجھتی ہے اور صبر وتحمل کا مظاہرہ کررہی ہے ۔ایک بات واضح ہے کہ اس کیس میں ڈاکومنٹری شہادت موجود ہے۔ فوج بندے لے گئی ہے ۔ہم نے فوج سے نہیں حکومت سے پوچھنا ہے ۔فیڈریشن کے تحت ہی فوج کام کررہی ہے ۔

خیبر پختونخواہ کے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ان کو نوٹس نہیں ہے اس دوران حکومت پنجاب نے بتایا کہ غلطی سے ان کو نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ اے جی نے کہا کہ 100سے زائد لوگوں کو ان کے خاندانوں سے ملاقات کرادی ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کیا ہم جنگل میں رہ رہے ہیں ۔ ہم ایک اسلامی ریاست ہیں ۔والد اپنے بیٹے کی جدائی میں مرگیا۔ وزارت دفاع بھی صحیح جواب نہیں دے رہی ہے ۔

حکومت اس سے چشم پوشی نہ کرے۔اے جی کے پی کے سے کہا کہ وہ پتہ کر کے بتائیں کے پی کے حکومت نے کیا کیا ہے؟جسٹس جواد نے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح سے معاملات چلتے رہیں گے تو وہ غلط فہمی کا شکار ہے۔ہمارے پاس جو اختیار ہے اس کو ضرور استعمال کریں گے ۔انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ بھی حکومت سے ہدایات حاصل کریں ۔جسٹس جواد نے کہا کہ عملدرآمد کے لئے ہمارے پاس ایک ہی طریقہ ہے ۔

ہم نے فوج سے نہیں وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ سے پوچھنا ہے کہ یہ بندے کہاں ہیں؟ آپ کے شہری غائب ہوئے ہیں کسی نے کوئی تفتیش کی ہے۔قانون نافذ کیا ہے ۔کسی کے خلاف ایکشن لیا ہے یا نہیں لیا گیا ہے۔عدالت نے کہا کہ اس مقدمے کو ہم ایک روز بعد رکھ لیتے ہیں ہم کسی کو کسی کے حقوق غصب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ہم نے وفاق اور صوبائی حکومت کو ایکشن لینے کا کہا تھا ۔

آرٹیکل 204 اور عدالتی حکم کی نافرمانی کا ایک قانون بھی موجود ہے ۔حکومت نے اتنا زیادہ واضح کر دیا ہے کہ حکومت کچھ نہیں کرنا چاہتی ۔ قانون جو ہمیں اجازت دے گا ہم کریں گے۔ اے جی نے کہا کہ سنجیدگی سے معاملہ دیکھیں گے ۔کے پی کے حکومت سے بھی جواب طلب کیا ہے۔ اس حوالے سے 15 منٹ میں جواب دیں۔ہمارے حکم پر عمل نہیں ہوگا تو کارروائی کریں گے ۔ہمارے پاس بندوق یا چھڑی نہیں ہے ۔

ہمارے پاس قانون موجود ہے۔اس کے مطابق ضرور کارروائی کریں گے۔آپ کے شہری ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ۔درخواست گزار محبت شاہ کو بھی بلایا جائے۔کسی کو وہم گمان یا خیال ہے کہ پہلے چھ ماہ تو یہ معاملہ چل گیا ہے آگے بھی چلے گا ایسا نہیں ہوگا۔ اس کیس کی سماعت کی ہم پرسوں تک ملتوی کر سکتے ہیں ۔عدالتی حکم پڑھ کر جواب دیا جائے ۔اگر عملدرآمد نہ ہوا تو فیصلے کے لئے اٹارنی جنرل آپ کی تجویز کے مطابق حکم جاری کریں گے۔

پرنسپل لاء آفسر ہونے کی وجہ سے اٹارنی جنرل کا احترام کرتے ہیں ۔شہریوں اور قانون کی حکمرانی کے لئے مثبت جواب دیا جائے ۔مزید سماعت22 جنوری کو ہوگی۔دوسری جا نب سپریم کورٹ نے حافظ محمد جمیل اور حماد عامر اور لاپتہ افراد کا مقدمات میں پیش رفت نہ ہونے پر ڈائریکٹر لیگل وزارت دفاع محمد عرفان کو تین فروری کوتفصیلی وضاحت کے ساتھ طلب کیا ہے جبکہ جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومت بتائے کہ ان لاپتہ افراد کے مقدمات دو سال سے زیر التواء ہیں پیش رفت نہ ہونا سمجھ سے بالاتر ہیں۔

ہر ادارہ انکار کررہا ہے تو پھر یہ نوجوان کدھر گئے۔زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ہر سماعت پر نئی وضاحت آجاتی ہے ایسا کب تک چلے گا ۔کبھی تو اداروں کو جواب دینا ہی پڑے گا۔جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ وزارت دفاع بتائے کہ یہ لاپتہ افراد کہاں گئے۔انہیں زمین نگل گئی ہے یا آسمان کھا گیا۔حکومت کے پاس اتنے وسائل ہیں تو پھر لوگوں کا نہ ملنا افسوسناک ہے ۔

پولیس کسی حساس ادارے کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی ۔لاپتہ افراد کی زندگیوں کو دیمک لگ رہی ہے حکومت احساس کرے کہیں یہ الزام ان پر نہ لگ جائے۔اتنا بڑا حکومتی ادارہ اور لاپتہ افراد ابھی تک نہیں مل رہے ۔زیادہ دیر یہ ٹال مٹول کی پالیسی نہیں چلے گی ۔عدالت آنکھیں بند نہیں کر سکتی تو کسی کو آئین و قانون کی خلاف ورزی نہیں کرنے دیں گے۔انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دیئے ہیں۔

جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کی ۔اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر ،آمنہ مسعود جنجوعہ اور ڈپٹی ڈائریکٹر لیگل محمد عرفان بھٹی پیش ہوئے ۔وزارت دفاع کی جانب سے عدالت کو حافظ جمیل کی جانب سے بتایا گیا کہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے سندھ ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد بارے پیش کردہ فہرست کا تذکرہ کیا تھا اس کی کاپی تاحال وزارت دفاع کو نہیں دی گئی ہے۔

جس کی وجہ سے معاملات میں پیش رفت نہیں ہو سکی ہے اس پر عدالت نے فہرست کی کاپی اور سندھ ہائی کورٹ کا حکمنامہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا اور سماعت تین فروری تک ملتوی کر دی ۔بعد ازاں عدالت نے حماد عامر جس کو ویسٹریج راولپنڈی سے اٹھایا گیا تھا کے مقدمات کی بھی سماعت کی ۔اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ آئی ایس آئی نے حماد عامر کی موجودگی سے انکار کیا ہے جبکہ ملٹری انٹیلی جنس نے مزید تحقیقات کے لئے دو ہفتے کا وقت مانگا ہے۔

اس پر عدالت نے کہا کہ آخر لاپتہ شخص کہاں گیا ہے؟ حماد کے والد نے عدالت کو بتایا کہ اس حوالے سے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ یہ جوان بھی حساس اداروں کے پاس ہے اور عاملے کا کھرا آئی نائن اسلام آباد تک جاتا ہے۔ وہاڑی سے ایک شخص نے ٹیلی فون کیا تھا کہ آپ کا بیٹا خیریت سے ہے اس کے خلاف کوئی الزام نہیں ہے ۔اسلام آباد میں ہے ۔بعد ازاں عدالت نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے بتایا کہ حماد عامر کے ساتھ زیر حراست افراد تھے وہ رہا ہو چکے ہیں ان لوگوں نے بتایا ہے کہ حماد عامر کو آئن نائن اسلام آباد میں کہیں رکھا گیا ہے ۔

عدالت نے وزارت دفاع کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان ٹھوس شواہد کی روشنی میں تحقیقات کرے اور تفصیلی رپورٹ دے ۔عدالت نے ڈائریکٹر لیگل محمد عرفان کو بھی تین فروری کو طلب کیا ہے۔