سابق چیئرمین پیمرا چوہدری رشید کو اہم افسروں کے خلاف بے قاعدگیوں ،کرپشن اور دیگر الزامات پر کارروائی مہنگی پڑی،اسی وجہ سے عہدے سے ہٹایا گیا ،خدشہ ہے یہ عناصر اپنی سازشوں میں کامیاب ہوگئے تو پیمرا جیسا ادارہ کرپشن کا گڑھ بن سکتا ہے، ذرائع

جمعرات 23 جنوری 2014 06:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23جنوری۔2013ء)پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) کے سابق چےئرمین چوہدری رشید احمد کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ انہیں پیمرا کے اہم افسروں کے خلاف بے قاعدگیوں ،کرپشن اور دیگر الزامات پر کارروائی مہنگی پڑی ہے اور اس کی وجہ سے ہی انہیں چےئرمین کے عہدے سے ہٹایا گیا ہے اور خدشہ ہے کہ اگر یہ عناصر اپنی سازشوں میں کامیاب ہوگئے تو پیمرا جیسا ادارہ کرپشن کا گڑھ بن سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے کو ملنے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ چوہدری رشید احمد نے پیمرا میں بے قاعدگیوں سے ہونے والی تقرریوں کا سخت نوٹس لیا تھا اور انہو ں نے اس حوالے سے ایف آئی اے کی مدد بھی حاصل کی تھی اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایک سال سے مختلف افسروں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے لیکن ان افسروں کی ایسوسی ایشن نے اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے چےئرمین کو ہی عہدے سے الگ کردیا۔

(جاری ہے)

دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ اشفاق جمانی جو ڈائریکٹر جنرل پالیسی کے طور پر کام کر رہے ہیں20ہزار تنخواہ لے رہے تھے لیکن مخصوص ٹولے کی بدولت آج وہ 2لاکھ 56ہزار444روپے تنخواہ تک پہنچ چکے ہیں،حالانکہ ان کی بی اے کی ڈگری بھی مشکوک ہے اور یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التواء ہے،چےئرمین کے ایک اور مخالف سردار عرفان اشرف نے 30ستمبر 2002ء کو ملازمت حاصل کی اور صرف چھ سال میں انہیں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی اور وہ آج ڈی جی لائسنسنگ کے طور پر کام کر رہے ہیں،جس کی تنخواہ2لاکھ53ہزار سے زائد ہے جبکہ وہ اس سے قبل26,000تنخواہ لے رہے تھے۔

اسی طرح جی ایم آپریشنز ڈاکٹر مختار احمد ،جی ایم جاوید اقبال،ڈی جی ایم امجد علی آفریدی،جی ایم ناصر ایاز اور دیگر کیخلاف بھی مختلف قسم کے الزامات پر تحقیقات کی جارہی تھیں اور ان میں سے کئی اس وقت بھی معطل ہیں اور ان کیخلاف تحقیقات جاری ہیں۔ذرائع نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر کسی بدعنوان افسر کو اس عہدے پر موقع دیا گیا تو پیمرا کا پورا ادارہ جو پورے الیکٹرانک میڈیا کو کنٹرول کرتا ہے کرپشن کا گڑھ بن سکتا ہے،کیونکہ یہاں معاملات ہی اربوں روپے میں طے ہوتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :