پرویز مشرف کی صحت سے متعلق تفصیلی میڈیکل رپورٹ خصوصی عدالت میں پیش،سابق صدر کی زندگی بچانے کے فوری انجیو گرافی ناگزیر ہے پرویز مشرف امریکہ میں اپنی مرضی کے ہسپتال سے علاج کرنے کے خواہاں ہیں ، رپور ٹ میں استدعا ، عدالت کی پراسیکیوٹر اکرم شیخ کو میڈیکل رپورٹ پر اعتراضات 27جنوری تک داخل کروانے کی ہدایات،سماعت 29جنوری تک ملتوی ، کسی ملزم کو ملک سے باہر علاج کرانے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا،پرویز رشید، پرویز مشرف اپنی جان کا رسک لے کر 45 منٹ کی مسافت طے کرنے کے بعد اپنی مرضی سے اے ایف آئی سی گئے ، حیرت ہے کہ اب انہیں یہاں پر اینجیو گرافی پر اعتماد نہیں، بیان

ہفتہ 25 جنوری 2014 07:39

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔25جنوری۔2014ء)سابق فوجی آمر پرویز مشرف کی صحت سے متعلق سربمہر تفصیلی میڈیکل رپورٹ غداری مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت میں پیش کر دی گئی،رپورٹ کے مطابق سابق صدر کی زندگی بچانے کے فوری انجیو گرافی ناگزیر ہے جس کے لئے پرویز مشرف امریکہ میں اپنی مرضی کے ہسپتال سے علاج کرنے کے خواہاں ہیں تاہم عدالت نے فریقین کے وکلاء کی جانب سے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست پر مقدمہ کی سماعت 29جنوری (بدھ) تک ملتوی کر تے ہوئے مقدمہ کے پراسیکیوٹر اکرم شیخ کو میڈیکل رپورٹ پر اعتراضات 27جنوری تک داخل کروانے کی ہدایات جاری کر دی ہیں جبکہ وکیل صفائی انور منصور خصوصی عدالت اور ججز کے تعصب سے متعلق اپنے دلائل اگلی سماعت پر دیں گے۔

جمعہ کے روز غداری مقدمہ کی سماعت تین رکنی خصوصی عدالت میں جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں ہوئی۔

(جاری ہے)

سماعت کے موقع پر سپیشل کورٹ کے رجسٹرار نے خصوصی عدالت کے سامنے اے ایف آئی سی کے سینئر ڈاکٹروں کی طرف سے تیار کی گئی سابق صدر کی تفصیلی میڈیکل رپورٹ سربمہر لفافے میں پیش کی۔میڈیکل رپورٹ کے مطابق سابق صدر کی زندگی بچانے کے لئے انجیو گرافی کرنا بہت ضروری ہے اور پرویز مشرف امریکہ میں اپنے مر ضی کے ہسپتال سے انجیو گرافی کروانا چاہتے ہیں، میڈیکل رپورٹ کے مطابق سابق صدر کی انجیو گرافی کروانے کے حوالے سے فوری فیصلہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔

میڈیکل رپورٹ میں سابق صدر کی دل کی شریانوں کا خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے جو میڈیکل رپورٹ کے مطابق متاثر بتائی جا رہی ہیں۔اس موقع پر وکیل صفائی انور منصور نے عدالت سے استدعاکی سابق صدر کی میڈیکل رپورٹ کو مکمل طور پر خفیہ رکھا جائے ، اس بات کا بین الاقوامی قوانین سطح پر بہت خیال رکھا جاتا ہے اور کسی کی ذاتی میڈیکل رپورٹ کو یوں میڈیا پر پبلک نہیں کیا جاتا جس طرح ہمارے ملک میں کیا گیا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ایک نجی ٹی وی چینل نے تو سابق صدر کی پہلی میڈیکل رپورٹ اپنی ویب سائیٹ پر لگا رکھی ہے جس کو ہٹانے کا حکم دیا جائے۔اس پر اکرم شیخ نے کہا کہ خفیہ معاملات کی نوعیت مختلف ہے ، میڈیکل رپورٹ میں ایسی کوئی چیز نہیں جس کی بناء پر اس کو خفیہ رکھا جائے، انہوں نے پریس کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 17 اور 19کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے آئین میں میڈیا کو رائٹ آف انفارمیشن دیا گیا ہے جس رپ انور منصور نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ سابق صدر ملک کے فوجی سربراہ رہے ہیں،قائد اعظم ایک پبلک فگر تھے مگر ان کی میڈیکل رپورٹ آخری وقت تک پبلک نہیں کی گئی تھی اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ ان کو کیا بیماری ہے۔

انور منصور نے اعتراض جاری رکھتے ہوئے کہاکہ انہوں نے یا ان کی ٹیم نے میڈیا کو رپورٹ نہیں دی تھی بلکہ پراسیکیوشن کی طرف سے دی گئی ہے جو اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ اکرم شیخ نے 50سے زائد صحافیوں کو لنچ دیا ، ایسے موقع پر اس کا کیا مقصد تھا۔اس دوران عدالت نے بیس منٹ کا وقفہ کیا اور وقفے کے بعد جب عدالت نے دوبارہ سماعت کی تو اکرم شخ نے میڈیکل رپورٹ پر زبانی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ سابق صدر کی میڈیکل رپورٹ پر وہ تحریری طورپر اپنے اعتراضات داخل کروانا چاہتے ہیں اس لئے آج میڈیکل رپورٹ پر کوئی فیصلہ جاری نہ کیا جائے ۔

ان کا کہنا تھاکہ ہمارے ملک میں علاج کی بہترین سہولیات موجود ہیں اور ان کاعلاج یہاں ہوسکتا ہے مگر ملزم کو خود ملٹری کے سب سے ہسپتال پر اعتماد نہیں جہاں دل کے مریضوں کے لئے بہترین سہولیات موجود ہیں۔اکرم شخ نے مزید کہا کہ سابق صدر کے میڈیکل رپورٹ کا جائزہ لینے کے لئے شفا ء انٹرنیشنل، آغاخان پمز اور دیگر ہسپتالوں کے پانچ ماہرین امراض قلب پر مشتمل میڈیکل بورڈ بنایا جائے جو اس بات کا فیصلہ کرے کہ سابق صدر کا علاج ملک میں ہوگا یا بیرون ملک بھیجنا لازمی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے مقدمہ کی سماعت 29جنوری تک ملتوی کر دی ہے۔عدالتی حکم کے مطابق مقدمہ کے پراسیکیوٹر کو پیر 27جنوری تک میڈیکل رپورٹ پر اعتراضات تحریری طورپر داخل کروانے اور ان کی کاپی وکلائے صفائی کو فراہم کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں جبکہ وکیل صفائی انور منصور کو خصوصی عدالت کے اختیارات اور ججز کے تعصب پر آئندہ سماعت پر دلائل دینے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔

ادھروفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ حیرانگی ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کو اپنی مرضی کے مطابق ہسپتال میں اینجیو گرافی پر اعتماد نہیں لیکن کسی ملزم کو ملک سے باہر علاج کرانے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔ جمعہ کے روز سابق صدر پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش ہونے کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کسی ملزم کو ملک سے باہر علاج کرانے کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دے گی اور اگر ایسا مان بھی لیا جائے تو پھر کوئی ملزم اپنے ملک کی جیل میں نہیں رہے گا اور خود فیصلہ کرکے ملک سے باہر چلا جائے گا۔

پرویز رشید نے کہا کہ پرویز مشرف اپنی جان کا رسک لے کر 45 منٹ کی مسافت طے کرنے کے بعد اپنی مرضی سے ہسپتال اے ایف آئی سی گئے اور حیرت ہے کہ اب انہیں یہاں پر اینجیو گرافی پر اعتماد نہیں۔ پرویز رشید نے کہا کہ اے ایف آئی سی میں لاکھوں اینیجوگرافی ہوچکی ہیں لیکن کسی کو بھی اس حوالے سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔