ایڈورڈ سنوڈن کے خلاف امریکی میڈیا کی مہم ، اگر امریکیوں کے قتل پر پابندی عائد نہ ہوتی تو میں خود سنوڈن کو موت کے،سنوڈن نے اپنے انکشافات میں روسی اور چینی خفیہ ایجنسی کے ساتھ گہرے تعاون سے کام لیا ہے، ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس سیاستدان

اتوار 26 جنوری 2014 08:37

واشنگٹن ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔26جنوری۔2013ء)چند امریکی حکومتی اہلکار این ایس اے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سنوڈن کو جان سے مار دینا چاہتے ہیں۔ جرمن ریڈیو رپورٹ کے مطابق اس بارے میں پینٹاگون کے ایک اہلکار، جو ماضی میں امریکی فوج کے ایک خصوصی دستے میں آفیسر کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں، نے میڈیا پورٹل ’ BuzzFeed کو ایک بیان دتے ہوئے کہا، ”فوجی وردی میں ملبوس ہونے کے باوجود مجھے کسی بھی انسان کی جان لینے کا شوق نہیں ہے تاہم سنوڈن امریکی تاریخ کا سب سے بڑا غدار ہے۔

اگر امریکیوں کے قتل پر پابندی عائد نہ ہوتی تو میں خود سنوڈن کو موت کے گھاٹ اتار دیتا"۔ حال ہی میں امریکی خفیہ ایجنسی این ایس اے کے ایک تجزیہ کار کا مذکورہ ویب سائیٹ کو بیان دیتے ہوئے کہنا تھا، "بہت سے افراد اس قسم کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں"۔

(جاری ہے)

میڈیا پورٹل ’ BuzzFeed کے مطابق امریکا میں سنوڈن کے خلاف "پْر تشدد دشمنی" کے جذبات این ایس اے کی سرگرمیوں سے متعلق سنوڈن کے انکشافات سامنے آنے کے بعد ہی سے پوشیدہ طور پر بھڑک رہے تھے۔

اب ان میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور سنوڈن کے ارادوں اور مقاصد کے بارے میں بحث و مباحثہ اْس کے وطن، امریکا میں شدت اختیار کر گیا ہے۔امریکی سیاست دان، جن میں ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں شامل ہیں، اس بارے میں اپنے شدید تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ سنوڈن نے اپنے انکشافات میں روسی اور چینی خفیہ ایجنسی کے ساتھ گہرے تعاون سے کام لیا ہے۔

امریکا کے ایوان نمائندگان میں خفیہ ایجنسی کی کمیٹی کے صدر مائیک راجرز نے این بی سی ٹیلی وڑن چینل کے ایک ٹالک شْو ’میٹ دا پریس‘ میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اْن کے خیال میں سنوڈن کا روسی خفیہ ایجنسی کی مدد سے ماسکو پہنچنے کا عمل کوئی اتفاق نہیں تھا"۔اْدھر امریکی ایوان نمائندگان میں ہوم لینڈ سکیورٹی کمیٹی کے سربراہ مائیکل میک کول کا اے بی سی کے پروگرام " This week" میں کہنا تھا، "میں نہیں سمجھتا کہ سنوڈن یہ سب کچھ تنِ تنہا کرنے کا متحمل تھا"۔

تاہم انہوں نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ وہ اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ اس سارے سلسلے میں روس ملوث رہا ہے، تاہم ان کے خیال میں روس نے سنوڈن کی پشت پناہی کی ہے۔ان بیانات کی توضیخ و تشریح مختلف طریقوں سے کی جا سکتی ہے تاہم مسئلہ یہ ہے کہ اب تک کوئی بھی سنوڈن اور کسی غیر ملکی خفیہ ادارے کے مابین تعاون کا ثبوت پیش نہیں کر سکا ہے۔

اس کے باوجود بہت سے افراد کے اذہان میں شکوک و شبہات جنم لینے کا سبب یہ امر بنا ہے کہ ،"کس آسانی کے ساتھ سنوڈن روس تک پہنچنے میں کامیاب ہوا اور ایسا لگتا ہیجیسے کہ اْس نے اپنے اس سفر کی پیشگی منصوبہ بندی کر رکھی تھی"۔ ابہام کے شکار ان افراد کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سنوڈن اپنا بوریا بستر باندھے بالکل تیار بیٹھا تھا۔

اس کے برعکس سنوڈن کیس کی تفتیش کرنے والے ایف بی آئی کے نمائندے نے نیویارک ٹائمز کو گزشتہ اتوار کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا تھا، "ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سنوڈن نے تمام کارروائی تنہا کی ہے"۔ادھر واشنگٹن میں قائم امریکا کے سینٹر فار ڈیجیٹل ڈیموکریسی کے چیف جیف چسٹر اس سلسلے میں سنوڈن کو سادہ لوح قرار دیتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اْن کا کہنا تھا، "سنوڈن امریکی میڈیا سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر رہے ہیں۔

خاص طور سے امریکی ٹیلی وڑن چینلز سے، جن کی امریکی حکومت یا طاقتور کمپنیوں کے خلاف کچھ کہنے کی صلاحیت بہت پہلے ہی کمزور ہو چْکی ہے"۔جیف چسٹر نے مزید کہا کہ دراصل سنوڈن کو اس امر پر بہت خوش ہونا چاہیے کہ انہوں نے امریکی میڈیا کے مرکزی دھارے کی اس قدر توجہ حاصل کی ہے۔ دونوں سب سے اہم اور بڑے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نے سنوڈن کو بہت زیادہ کوریج دی ہے۔

جیف کے بقول سنوڈن کو امریکی میڈیا نے غیر معمولی توجہ دیتے ہوئے اس کے ساتھ تعاون کا اظہار کیا ہے، خاص طور سے ایسے صحافیوں کے گروپ نے ، جس نے سنوڈن کے انکشافات پر مفصل رپورٹنگ کی ہے۔ تاہم جیف چسٹر نے بھی امریکا میں سنوڈن مخالف مہم کی مذمت کی ہے اور اپنے بیان میں جیف نے کہا، "اوباما دور میں بھی لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے"۔

متعلقہ عنوان :