وفا ق پن بجلی کی مد میں تمام بقایات جات، مالاکنڈ ڈویژن میں دہشتگردی کے نقصان کے ازالے کی مد میں 86ارب روپے کی فوری ادائیگی کرے،پرویز خٹک،صوبہ بھر میں دہشتگردی کی مد میں نقصانات کو تخمینے کی مطابق ادائیگی ، آٹھویں این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کے لئے فیڈرل ڈیوائزبل پولڈ،جی آئی ڈی اور پی ڈی ایل سمیت دیگر محاصل شامل کر کے اس میں اضا فہ کیا جائے، صوبے کے غیر استعمال شدہ پانی کی مد میں سندھ اور پنجاب سے 118ارب روپے کی فوری ادائیگی کے علاوہ این ایف سی ایوارڈ کے مطابق ترقیاتی سکیموں میں صوبے کا حصہ 14.67فیصد کرنے اور صوبے کے لیے مختص کردہ رقم کی سو فیصد ادائیگی اسی برس کی جائے ، پرویز خٹک کی زیر صدارت صوبہ خیبر پختونخواہ کی محرومیاں دور کرنے کیلئے صوبائی و قومی اسمبلی ممبران و سینٹ پر مشتمل جرگے کا اعلامیہ جاری

منگل 28 جنوری 2014 08:57

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔28جنوری۔2014ء)وزیر اعلی خیبر پختونخواہ پرویز خٹک کی زیر صدارت صوبہ کی محرومیاں دور کرنے کے لئے خیبرپختونخواہ کے ممبران اسمبلی و سینٹ پر مشتمل جرگے کا اعلامیہ جاری کر دیا گیاہے جس میں وفاقی حکومت سے پن بجلی کی مد میں تمام بقایات جات کی فوری ادائیگی، مالاکنڈ ڈویژن میں دہشتگردی کے نقصان کے ازالے کی مد میں 86ارب روپے،صوبہ بھر میں دہشتگردی کی مد میں ہونے والے نقصانات کو تخمینے کی مطابق ادائیگی کو یقینی بنانے اور آٹھویں این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کے لئے فیڈرل ڈیوائزبل پولڈ،جی آئی ڈی اور پی ڈی ایل سمیت دیگر محاصل شامل کر کے اس میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ صوبے کے غیر استعمال شدہ پانی کی مد میں سندھ اور پنجاب سے 118ارب روپے کی فوری ادائیگی کے علاوہ این ایف سی ایوارڈ کے مطابق ترقیاتی سکیموں میں صوبے کا حصہ 14.67فیصد کرنے اور صوبے کے لیے مختص کردہ رقم کی سو فیصد ادائیگی اسی برس کرنے کے مطالبات پیش کیے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

پیر کو جرگہ اسلام آباد میں واقع خیبر پختونخوہ ہاوٴس میں وزیر اعلی کی زیر صدارت ہوا جس میں خیبرپختونخوا کے ممبران قومی اسمبلی و سینٹ کی جانب مشترکہ طور پر اعلامیہ جاری کیا گیا ۔اعلامیے کے مطابق شدہ دونوں ایوانوں میں موجود ارکان قومی اسمبلی وسینٹ پر مشتمل ہے متفقہ طور پر وفاقی حکومت اور دیگر تمام مجاز اداروں سے پر زور سفارش ومطالبہ کرتا ہے کہ ساتویں این ایف سی ایوارد میں درج اہداف کو بھرپور طریقہ سے حاصل کرکے صوبہ خیبرپختونخواکو اس کے حصے کی رقومات بروقت مہیا کی جائیں اور اس میں کمی کا تدارک کیا جائے تاکہ صوبہ اپنے ترقیاتی پروگرام اور امن و امان کی بہتری کے لئے مناسب اقدامات کرسکے۔

نیز آٹھویں این ایف سی ایوارڈ کے لئے Federal Divisible Pool میںPDL, GIDC اور دیگر محاصل شامل کرکے توسیع کی جائے اور صوبہ خیبرپختونخوا کے حصے میں مناسب اضافہ کیا جائے۔ آئندہ این ایف سی اور دیگر مسائل میں اعداد و شمار کی اہمیت کو سمجھتے نئی مردم شماری جلد از جلد مکمل کروائی جائے تاکہ آئندہ مالیاتی ایوارڈ میں درست اعداد و شمار کی روشنی میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جاسکے۔

آئین کے آرٹیکل 161(2) اور AGN قاضی فارمولے کے تحت باقاعدگی سے پن بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی صوبے کا مسلمہ اور بنیادی حق ہے اور اس سلسے میں کی جانے والی تاخیر آئین، مشترکہ مفاداتی کونسل اور صدارتی فیصلوں کی سنگین خلاف ورزی ہے لہٰذا نہ صرف تمام بقایا جات بلا کسی مزید تاخیر کے صوبے کو ادا کئے جائیں بلکہ آئندہ سالوں کے لئے بھی پن بجلی کے منافع کی شرح کو غیر منجمد کیا جائے اور اس کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت صدارتی حکم نمبر3 1991/ کے تحت رقم کی ادائیگی کی ضامن ہے اس لیئے اگر وفاقی حکومت مذکورہ فیصلوں پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہی تونہ صرف آئندہ این ایف سیکے اجلاسوں میں صوبہ یہ مطالبہ وفاق کے سامنے رکھے گا بلکہ اس جرگہ کے شرکاء اور تمام سیاسی جماعتیں صوبے کے حقوق کے حصول کیلئے آخری حد تک جانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔

ایک طویل عرصے تک صوبے میں مسلسل بدامنی کی وجہ سے اس کے 2 کروڑ عوام زبردست مشکلات سے دوچار ہیں۔ اوسطاً ہر چھتیس گھنٹے میں صوبہ کم از کم ایک دفعہ کسی بڑی دہشت گردی کی کاروائی کا نشانہ بنتا ہے۔ ڈرون حملوں کے نتیجے میں شر پسندانہ کاروائیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ قبائلی علاقوں میں بدامنی کی وجہ سے صوبے پر بھاری معاشی بوجھ پڑ رہا ہے۔ ہزاروں شہری اور قانون کے رکھوالے جام شہادت نوش کر چکے ہیں جبکہ بیسیوں ہزاروں زخمی بھی معیشت کے دھارے سے نکل چکے ہیں، جبکہ متاثرہ خاندانوں کی بحالی اور مساجد و مدارس، سکولوں، ہسپتالوں، بازاروں اور دیگر املاک کوپہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے لئے سینکڑوں ارب روپے درکار ہیں صوبے میں بدامنی کے باعث مزید سرمایہ کاری ختم ہوچکی ہے جبکہ سرمایہ کار اور صنعت کار اپنے کاروبارصوبے سے منتقل کر رہے ہیں۔

ان حالات میں صرف Federal Divisible Pool کا ایک فیصد دہشت گردی کی مد میں مختص کرنا اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ لہذا یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ آٹھویں این ایف سی ایوارڈمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں صوبے کے لئے Federal Divisible Pool کی کم از کم 5%کی رقم مختص کرنے بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔اعلامییلاکنڈ ڈویژن کے کچھ اضلاع اور ملحقہ علاقوں میں بدامنی اور ٓاپریشن کی وجہ سے عوام کا بے پناہ جانی اور مالی نقصان اورنقصان کا تخمینہ 86 ارب روپے لگایا گیا ہے۔

اسی طرح جنگ زدہ صوبے کی دیگر اضلاع کی بعد از شورش بحالی کے لئے بھی سینکڑوں ارب روپوں کے تخمینہ کی غیر جانب دار رپورٹیں موجود ہیں، وفاق نے ہمیشہ صوبے کو اس نقصان کے مکمل ازالے کی یقین دہانی کروائی ہے جس کے لئے محاصل میں 5%کے علاوہ بھی یہ سفارش کر کے مالی امداد میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اعلامیے کے مطابق مسلسل بدامنی اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے صنعت کا شعبہ روبہ زوال ہے ۔

نئی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ موجودہ کارخانے زیادہ تر بند پڑے ہیں ، جس سے معاشی کساد بازاری اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ مزیدبرآں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے نہ صرف عوام الناس شدیدتکلیف کا شکار ہیں بلکہ کاروبار بھی شدید متاثر ہورہا ہے۔ وفاق نے اس مسئلے کے ٹھوس حل کی بجائے پیسکو کی منتقلی کی تجویزدی ہے ۔اعلامیے میں سفارش کی گئی ہے کہ محض تقسیم کار کمپنی کے صوبے کو جامع بجلی کا نظام بشمول پیداواری یونٹوں کوبمعہ مناسب مالی وسائل کے منتقل کیا جائے تاکہ بجلی کے بحران پر صحیح معنوں میں قابو پایا جاسکے اور صوبہ اپنی خواہش کے مطابق منصفانہ تقسیم یقینی بناتے ہوئے صوبے میں صنعتی انقلاب برپا کرسکے اور کہا گیا کہ ساتویں NFCایوارڈ کے محاصل کی تقسیم کے فارمولے میں غربت اور پسماندگی کو محض (10.30%) کا وزن دیا گیا تھا اور یوں محاصل کی منصفانہ تقسیم یعنیHorizontal Fiscal Equalizationسے پہلو تہی کی گئی تھی جس کی وجہ سے غریب اور پسماندہ صوبوں باالخصوص خیبر پختونخوا کی حق تلفی ہوئی ہے۔

جس کی بناء پر مطالبہ کیا گیا ہے کہ آٹھویں این ایف سی ایوارڈ میں غربت اور پسماندگی کا فارمولے میں تناسب بڑھا کر اسے کم از کم 15%کیا جائے اور معاشی ناہمواری کی بنیاد کو بھی فارمولے میں شامل کرکے اسے بھی کم از کم 10%وزن دیا جائے۔اعلامیے میں حالیہ برسوں میں دریافت ہونے والے تیل اور گیس ذخائر پر رب العزت کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ اس وقت صوبہ خام تیل کی ملکی پیداوار کا نصف پیدا کر رہا ہے جبکہ گیس کی پیداوار بھی صوبائی ضروریات سے دگنی ہے جرگہ وفاقی اداروں سے تقاضا کرتا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 172(3)اور 158کی پابندی کی جائے اور صوبے کی ضروریات کے مطابق ترجیحی بنیادوں پرگیس مختص کی جائے تاکہ صوبہ صنعتی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کرسکے بلکہ صوبے میں موجود تمام تیل و گیس کے ذخائر اور کنووٴں کا پیداواری ڈیٹا بھی یومیہ یا ماہواری بنیادوں پر مہیا کیا جائیاور آئین کے آرٹیکل 161(1)کی روشنی میں وفاق سے مطالبہکیا گیاکہ فی الفور خام تیل پر مناسب excise dutyنافذ کرکے جمع ہونے والی رقم صوبوں کو منتقل کی جائے تاکہ صوبہ اپنی ترقیاتی ضرورتوں کو خود سے پورا کر سکے۔

اعلامیے میں نی کے تقسیم کے1991 Water Accord کے مطابق وفاق اس غیر استعمال شدہ پانی کے قیمت بابت 118 ارب روپے کی ادائیگی کا مطالبہ اور چشمہ رائٹ بنک کنال اور منڈا ڈیم کے لئے فنڈز مہیا کرنے کے مطالبے بھی کیے گئے ۔اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین کی آٹھارویں ترمیم کے تحت متعارف کرائے گئے آرٹیکل 167(4)پر عمل درآمد میں تاخیر کو بھی انتہائی تشویش کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہہ فوری طور پر National Economic Councilضروری frameworkمہیا کرے تاکہ صوبے اپنی مرضی کے مطابق اپنے consolidated fundکے عوض قرضے حاصل کرسکیں۔

وفاقی حکومت مالیاتی ذمہ داری کے قانون مجریہ 2005ءء میں بھی ضروری ترامیم کرکے نہ صرف صوبوں کے لیے بلا واسطہ قرضوں کے لیے حد مقرر کی جاسکے بلکہ اپنے قرضوں میں خاطر خواہ کمی لا کر صوبوں کو کچھ مالیاتی سہولت مہیا کی جائے تاکہ وہ قرضوں کی حد میں رہتے ہوئے اپنی ضرویات کے لیے خود قرضے حاصل کرسکیں۔ جبکہ وفاقی سالانہ ترقیاتی پروگرام یعنی PSDPمیں صوبے کے ساتھ گذشتہ کئی برسوں سے روا رکھی گئی ناانصافیوں کو بھی انتہائی تشویش کا اظہار کیا گیا اوربتایا گیا کہ گزشتہ چار برسوں میں PSDP کی مد میں کُل3421 ارب روپے کی سکیمیں منظور کی گئیں۔

اس میں خیبر پختونخوا صوبے کے لئے 260.5 ارب روپے مختص کئے گئے جو کہ صرف 7.6 فیصد بنتا ہے جبکہ NFC کے مطابق ہمارا حصہ 14.62 فیصد ہوتا ہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس میں پختونخوا کے لئے صرف2 فیصد رقم کا اجراء کیا گیا۔ جبکہ NFC کے مطابق یہ حصہ14.62 فیصد ہونا چاہئیے۔ اور اصل خرچ صرف59.17 ارب روپے ہوئے جو کہ کل 4 سالہ PSDP کا 1.7% بنتا ہے۔ اس تناظر میں جرگہ متفقہ طور پر مطالبہ کرتا ہے کہ نہ صرف PSDPمیں شامل منصوبوں کو NFCکی شرح ِ تقسیم محاصل سے منسلک کیا جائے بلکہ یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ صوبے کے لیے مختص کردہ رقم اور پروگراموں پر پوری طرح سے عمل ہواور صوبے کے لئے مختص رقم سو فیصد(100%)صوبے کے منصوبوں پر مالی سال کے اندر اندر خرچ مطالبہ کیا گیا اور صوبے کی محرمیوں کو دور کرنے کے مطالبات پیش کیے گئے ۔