پارلیمنٹ کی خصوصی کشمیر کمیٹی کا 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر بھرپور انداز میں منانے اور اقوام متحدہ کو یادداشتیں پیش کرنے کا فیصلہ، ہندوستان مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل نہیں کرنا چاہتا تو عالمی فورمز پر مسئلہ اٹھائیں گے ‘مولانا فضل الرحمن، بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینا آسان نہیں‘ اگر صرف تجارت کو مدنظر رکھ کر ایم ایف این کا درجہ دے دیا تو پھر بھارت بلیک میل بھی کرسکتا ہے،طالبان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے‘ تمام سیاسی جماعتیں بات چیت پر متفق ہیں ،میڈیا سے بات چیت،بھارت کیساتھ سرحدوں پر کچھ معاملات ہیں البتہ مذاکرات کا عمل جاری ہے،سیکرٹری خارجہ

بدھ 29 جنوری 2014 08:11

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔29جنوری۔2014ء) پارلیمنٹ کی خصوصی کشمیر کمیٹی نے 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر بھرپور انداز میں منانے اور اقوام متحدہ کو یادداشتیں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ کمیٹی کے چیئرمین اور جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ہندوستان مسئلہ کو مذاکرات کے ذریعے حل نہیں کرنا چاہتا تو عالمی فورمز پر مسئلہ اٹھائیں گے ‘ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینا آسان نہیں‘ اگر صرف تجارت کو مدنظر رکھ کر ایم ایف این کا درجہ دے دیا تو پھر بھارت بلیک میل بھی کرسکتا ہے‘ وزارت تجارت نے معاملے پر مشاورت کی یقین دہانی کرائی ہے‘ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کریں گے‘ چاروں وزرائے اعلی کو بھی مسئلہ کشمیر کے بارے میں خطوط لکھوں گا‘ طالبان سے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے‘ تمام سیاسی جماعتیں بات چیت پر متفق ہیں جبکہ سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد نے کہا ہے کہ بھارت کیساتھ سرحدوں پر کچھ معاملات ہیں البتہ مذاکرات کا عمل جاری ہے۔

(جاری ہے)

منگل کو خصوصی پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر کا اجلاس چیئرمین مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں اراکین کمیٹی‘ وزارت خارجہ‘ سیکرٹری امور کشمیر سمیت دیگر متعلقہ محکموں کے اعلی حکام نے شرکت کی اور کمیٹی کو ان کیمرہ بریفنگ دی۔ کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد اور سیکرٹری امور کشمیر نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دی۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پانچ فروری کو کشمیر کمیٹی یوم یکجہتی کشمیر بھرپور طریقے سے منائے گی اور اس سلسلے میں اس روز کشمیر کمیٹی کا وفد اقوام متحدہ کے دفتر جائے گا اور مسئلہ کشمیر بارے یادداشت پیش کرے گا اور مطالبہ کرے گا کہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی 1949ء کی قراردادوں پر عملدرآمد کرایا جائے۔ انہوں نے اس موقع پر مزید بتایا کہ 1993ء میں کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔

انہوں نے کہاکہ حق خودارادیت کشمیریوں کا پیدائشی حق ہے اور اس معاملے پر ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ او آئی سی کشمیر گروپ اہم فورم ہے۔ اس فورم کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر بہت پذیرائی حاصل ہورہی ہے اور یہ فورم اس کی شہادت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہندوستان مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے پر تیار نہیں ہے تو اقوام متحدہ سمیت عالمی فورمز پر مسئلہ کشمیر کو اٹھانے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ رواں قومی اسمبلی کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر متفقہ قرارداد منظور کرائیں گے جبکہ رواں سال کشمیر کمیٹی کا وفد مختلف ممالک کے دورے کرکے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرے گا۔ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی کو اس معاملے کو اجاگر کرنے کیلئے خطوط بھی ارسال کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہ کہ یورپی یونین ہندوستان کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے حوالے سے پاکستان پر مسلسل دباؤ بڑھا رہا ہے۔

ہم بھی سمجھتے ہیں کہ پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات اور تجارت ہونی چاہئے لیکن بھارت کیساتھ صورتحال کچھ مختلف ہے کیونکہ ہماری معیشت کی بنیاد زراعت اور صنعت پر ہے لیکن زرعی پیداوار کو بھارت کی جانب سے پانیوں پر پابندی پر مشکلات کا سامنا ہے۔ اس معاملے پر وزارت تجارت سے وضاحت بھی طلب کی تھی کہ اگر بھارت پانی روک لے تو زراعت متاثر ہوگی اور اگر صرف تجارت پر انحصار کیا جائے تو ہندوستان پر اپنی شرائط پاکستان کو بلیک میل کرے گا اسلئے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اس معاملے پر احیاء برتی جائے جس پر وزارت تجارت نے یقین دلایا تھا کہ اس معاملے پر کشمیر کمیٹی سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔

طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پہلے دن سے ہمارا موقف ہے کہ طاقت کسی مسئلے کا حل نہیں ہے تمام کل جماعتی کانفرنسوں میں مذاکرات پر اتفاق کیا گیا تھا بہتر ہے اسی آپشن کے ذریعے قیام امن کی راہ ہموار کی جائے۔ بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد نے کہا کہ سرحدوں پر بھارت کیساتھ کچھ مشکلات ہیں اور کچھ معاملات رکے ہوئے ہیں البتہ مذاکرات کا عمل بھی جاری ہے۔