قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی ، تحریک انصاف ، ایم کیو ایم اور قومی وطن پارٹی نے تحفظ پاکستان (ترمیمی ) آرڈیننس کی کھل کر مخالفت، ٹاڈا جیسا کالا قانون قرار دیدیا،دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے یہ قانون ضروری ہے، مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی کا موت کی سزا پر عملدرآمد بحال کرنے کا مطالبہ، بلوچستان کے امن وامان پر بھی طالبان سے مذاکرات کی طرز پر قومی کمیٹی تشکیل دی جائے ، عیسی نوری

جمعہ 31 جنوری 2014 08:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔31جنوری۔2014ء) قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی ، تحریک انصاف ، ایم کیو ایم اور قومی وطن پارٹی نے تحفظ پاکستان (ترمیمی ) آرڈیننس 2014ء کی کھل کر مخالفت کی اور اسے ٹاڈا جیسا کالا قانون قرار دیا اور کہا کہ یہ مستقبل میں سیاستدانوں کیخلاف استعمال ہوگا ،مسلم لیگ (ن) نے تحفظ پاکستان ترمیمی بل کی حمایت کی اور کہا کہ یہ قانون دہشتگردی کے خاتمے میں مدد دے گا جبکہ جماعت اسلامی نے موت کی سزا پر عملدرآمد بحال کرنے پر زور دیا،بلوچستان کے رکن اسمبلی عیسی نوری نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کے امن وامان پر بھی طالبان سے مذاکرات کی طرز پر قومی کمیٹی تشکیل دی جائے ، قومی وطن پارٹی کے رکن اسمبلی نے کہا کہ حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لیے حدود کا تعین کرنا چاہیے ۔

(جاری ہے)

جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ملک میں امن و امان کی موجودہ صورتحال پر بحث کرتے ہوئے فاٹا کے آزاد رکن اسمبلی شاہ گل آفریدی نے کہا ہے کہ فاٹا میں صدر نے سوئی گیس فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن تاحال اس اعلان پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں پٹھان آباد ہیں جس کی وجہ سے نہیں ٹوٹا‘ بنگلہ دیش میں پٹھان نہیں ہیں اسلئے وہ ٹوٹ گیا۔

طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے قومی کمیٹی میں فاٹا کی نمائندگی نہیں ہے اور نہ ہی کسی معاملے میں مشورہ کیا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ گذشتہ روز وزیراعظم نے ایوان کو رونق بخشی ہے جس سے گومگو کی کیفیت ختم ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں دہشت گردوں کو سزائے موت نہیں دی جارہی لہٰذا سزائے موت بحال کی جائے اور صدر رحم کی اپیل خارج کریں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کو سزائیں دی جائیں۔ 3100 لوگوں اور مجرموں کو پکڑا گیا جبکہ 2001ء سے لے کر 2013ء تک 60 ہزار مجرموں کو پکڑا گیا لیکن کسی ایک کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کالا قانون ہے اور آنے والے دنوں میں سیاستدانوں کیخلاف استعمال ہوگا۔ اس کی ہم بھرپور مخالفت کریں گے۔ آرڈیننس میں ترمیم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جب تک امریکی فوج موجود ہے وہاں امن قائم نہیں ہوسکتا۔

پیپلزپارٹی کی رکن اسمبلی نفیسہ شاہ نے کہا کہ دہشت گردی میں چوہدری اسلم‘ اعتزاز حسین اور بنوں میں لوگ شہید ہوئے۔ اپوزیشن نے بالغ النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بائیکاٹ ختم کیا۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے وزیراعظم قدم بڑھائیں۔ اپوزیشن ان کیساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں بلاول بھٹو فرنٹ لائن اتحادی ہیں جبکہ دہشت گردی کیخلاف بنائی گئی کمیٹی وقت گزارنے والی بات ہے اور گذشتہ روز وزیراعظم ایوان میں تقریر کررہے تھے کہ اس دوران کراچی میں دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ قومی امن کمیٹی میں میڈیا کے بڑے گروپ کے دو لوگ شامل ہیں اور کمیٹی کے ممبران مختلف ممبران ہیں۔ حکومت دہشت گردوں کیخلاف مذاکرات اور کارروائی سے ڈرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی اور بلوچستان میں حکومت آپریشن کررہی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں مذاکرات بھی کرنا ہوں گے اور آپریشن بھی کرنا ہوگا۔ افغانستان کیساتھ تعلقات بہتر ہونے چاہئیں اس حوالے سے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔

ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی عبدالرشید گوڈیل نے کہا ہے کہ طالبان دہشت گردانہ حملے کررہے ہیں اور حکومت مذاکرات کی بات کررہی ہے۔ گذشتہ روز ”امیرالمومنین“ ایوان میں آئے۔ دہشت گردی کیخلاف کوئی پالیسی نہیں بن رہی۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہے۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس نہیں لانا چاہئے تھا ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں لیکن حکومت نے کچھ نہیں کیا۔

قومی وطن پارٹی کے رکن اسمبلی آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر کے بعد بہت سی چیزیں تبدیل ہوچکی ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد آرڈیننس کا کلچر ختم ہونا چاہئے کیونکہ قومی اسمبلی کا اجلاس اور پھر آرڈیننس کا آنا پارلیمنٹ پر سوالیہ نشان ہے۔ اس آرڈیننس سے پولیس کو مزید اختیارات مل جائیں گے اور آرڈیننس کا غلط استعمال ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے تاحال قانون و انصاف کا وزیر مقرر نہیں کیا۔ اراکین اسمبلی کا کام ترقیاتی کام نہیں بلکہ قانون سازی کرنا ہے۔ وزیراعظم کا ایوان میں آنا اور تقریر کرنا خوش آئند ہے۔عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو مینڈیٹ ملا ہے تاکہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکے جبکہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کو بھی امن بحال کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پولیو پشاور سے شام تک پھیل گیا ہے۔ اسے کنٹرول کرنا صوبے کی ذمہ داری جوکہ پوری نہیں کی جارہی۔ اس خطے کیلئے 2014ء اہم سال ہے۔ افغانستان میں الیکشن بھی ہونے والے ہیں اور ہم نے ملک میں امن بھی قائم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملالہ یوسفزئی کی کتاب کی رونمائی کرانے سے حکومت گھبراتی ہے جس کی اجازت نہیں دی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اپنی حدود کا تعین کرنا چاہئے۔

سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کیخلاف مشترکہ پالیسی بناکر ملنا ہوگا جس سے امن ممکن ہوگا گوکہ یہ مرحلہ بہت مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو کل جماعتی کانفرنس میں تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی۔ رکن اسمبلی لال چند نے کہا کہ ملک میں امن وامان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے کراچی میں تو بدامنی کی بات کی جاتی ہے جبکہ اندرون سندھ میں بھی امن وامان کی صورتحال بہت خراب ہے اور وفاقی سطح پر انسانی حقوق کا محکمہ کچھ بھی نہیں ہوتا کچھ دن قبل ہندو پوجا نامی لڑکی کو اغواء کیا گیا لیکن اس کو تاحال بازیاب نہیں کرایا گیا انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران بیس ہزار ہندو خاندان انڈیا ہجرت کرتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں یوتھ فیسٹول موہنجو داڑھو میں سٹیج بنایا جارہا ہے جس سے وہ آثار قدیمہ متاثر ہوگا ۔ جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی شیر اکبر خان نے کہا کہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کی جان ومال کا تحفظ کرے جبکہ ملک میں امن وامان کی صورتحال بہت خراب ہے انہوں نے کہا کہ حکومت آٹھ سو ارب آئی ایم ایف کو سود کی مد میں پیسے ادا کئے جارہے ہیں جس کی وجہ خرابیاں پیدا ہورہی ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ حکمران آئین کے آرٹیکل 38-37پر عمل کرلیں تو معاملات ٹھیک ہوجائینگے ۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں مسائل فوجی آپریشن سے حل نہیں ہونگے اور جنگ مسائل کا حل نہیں ۔ بلوچستان سے رکن اسمبلی عیسی نوری نے کہا کہ بلوچستان میں حالات اتنے خراب ہیں کہ وہاں اجتماعی قبریں دریافت ہورہی ہیں لاپتہ افراد کے لواحقین پیدل مارچ کرتے ہیں لیکن حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی انہوں نے کہا کہ دو سو سر کٹی لاشیں ایک ہی قبر میں دفن پائی گئی ہیں لیکن کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی لگتا ہے حکومت کو ہماری ضرورت نہیں ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے نوجوان اپنا حق مانگ رہے ہیں اور گوادر پورٹ میں بلوچستان نوجوان بھی ملازم ہیں اور اس میں لائلٹی کا کیا حصہ ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلے گے سب کو نظر آرہا ہے جس طرح طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دی ے اس طرز پر بلوچستان پر کمیٹی تشکیل دیں ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں بلوچستان کے حالات ٹھیک کریں ورنہ ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیں ۔