بلوچستان بدامنی کیس،لاپتہ افراد کی عدم بازیابی پر سپریم کورٹ کا اظہار برہمی، سیکرٹری دفاع اور داخلہ عدالت طلب ،صوبائی حکومت اور ایف سی مل کر لاپتہ افراد کا معاملہ حل کریں، جن ایف سی افسران پر الزامات تھے وہ فوج میں واپس چلے گئے ہیں اب کس کیخلاف کارروائی کی جائے گی ، وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کو لاپتہ افراد کے معاملے پر جواب دینا ہوگا ،لاپتہ افراد کے مقدمات کی پیروی ہم سب پر فرض ہے، یہ انسانی حقوق کے مقدمات ہیں جن پر آنکھیں بند نہیں کرسکتے ،جسٹس ناصر الملک

جمعہ 31 جنوری 2014 08:23

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔31جنوری۔2014ء) سپریم کورٹ نے بلوچستان بدامنی کیس میں لاپتہ افراد کی بازیابی نہ ہونے پر سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کو نوٹس جاری کردیا ہے اور 13فروری کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے ان سے جواب مانگ لیا ہے ۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ایف سی اور بلوچستان حکومت مل کر لاپتہ افراد کا معاملہ حل کریں ، لاپتہ افراد کے حوالے سے جواب اب وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کو دینا ہوگا یہ حکم جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعرات کے روز جاری کیا ہے جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے ہیں کہ لاپتہ افراد کے مقدمات کی پیروی ہم سب پر فرض ہے ۔

ایف سی کے ان 15 اہلکاروں کو جان بوجھ کر آرمی کو واپس بھجوا دیا جن پر افراد کے لاپتہ کئے جانے کا الزام تھا یہ انسانی حقوق کے مقدمات ہیں جن پر آنکھیں بند نہیں کرسکتے جبکہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے دل بوجھل ہوجاتا ہے شواہد کے بغیر لاپتہ افراد پر لگائے گئے الزامات کیسے تسلیم کرلیں کسی کی موت واقع ہوگئی تو اس کا لواحقین کو تو معلوم ہے انسانی جانوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے ۔

(جاری ہے)

دنیا میں ہر کام کرنے کا کوئی نہ کوئی ضابطہ اور قواعد ہے کیا حساس اداروں کے لیے کوئی قانون موجود ہے یا نہیں اس معاملے پر حکومت باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے لوگوں کو تفصیلات سے آگاہ کرے ۔ انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیئے ہیں لاپتہ افراد کے حوالے سے سماجی تنظیم کے سربراہ نصراللہ بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افرا د کے حوالے سے بلوچستان حکومت کوئی تعاون نہیں کررہی ۔

بلوچستان کے حالات انتہائی خراب ہیں حساس ادارے شہریوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر لے جارہے ہیں اس کام میں ایف سی بھی ملوث ہے ایف سی کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ایف سی تعاون کررہی ہے ایف سی کے پندرہ اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا اس پر جسٹس ناصر نے پوچھا کہ اب وہ افراد کہاں ہیں ؟ تو اس پر عرفان قادر کا کہنا تھا کہ یہ لوگ واپس آرمی چلے گئے ہیں اب نہیں پتہ کہ وہ کہاں ہیں ؟ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایف سی کو اس حوالے سے معلوم نہ ہو، بلوچستا ن حکومت کے وکیل شاہد حامد نے بتایا کہ ایف سی صوبائی حکومت کے تحت نہیں ہے بلکہ یہ وفاقی حکومت کے تحت کام کررہی ہے اور اس بارے آپ وزارت دفاع یا داخلہ سے پتہ کرسکتے ہیں حکومت اپنی طرف سے جو کچھ کرسکتی ہے کررہی ہے اور کرتی رہے گی نصراللہ بلوچ نے عدالت کو مزید بتایا کہ عدالت میں پیش ہونے والے لاپتہ کے لواحقین کو خوفزدہ اور ڈرایا جاتا ہے ہم استدعا کرتے ہیں اس بینچ میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ وہ اس مقدمے کی تمام تر تفصیلات بخوبی جانتے ہیں اس پر عدالت نے کہا کہ یہ کام چیف جسٹس پاکستان کا ہے فکر نہ کریں ہم بھی اتنے ہی کنسرن ہیں جتنا آپ ہیں نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ خضدار کی قبر سے پچیس نہیں 13لاشیں ملی تھیں بلوچستان کے حالات کا سب کو پتہ ہے مگر کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں اس پر عدالت نے ایف سی اوربلوچستان کو حکم دیا ہے کہ وہ لاپتہ افراد کا معاملہ دیکھے اور عدالت کو جواب دے جبکہ عدالت نے بلوچستان کے حوالے سے دیگر معاملات اور ایف سی پر مبینہ الزامات پر سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ کو 13 فروری کو عدالت میں طلب کیا ہے ۔