وفاقی حکومت نے لاپتہ افراد کے مقدمات کو تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت ڈیل کرنا شروع کر دیا، ابتداء ڈھوک چوہدریاں سے ایک نوجوان کو مذکورہ آرڈیننس کے تحت تحویل میں لے کر کی گئی، لاپتہ افراد کے معاملات پر پہلی درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر،دادرسی کی استدعا

منگل 4 فروری 2014 07:50

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4فروری۔2013ء)وفاقی حکومت نے لاپتہ افراد کے مقدمات کو تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت ڈیل کرنا شروع کر دیاہے ۔اس کی ابتداء ڈھوک چوہدریاں سے محمد زبیر نامی نوجوان کو مذکورہ آرڈیننس کے تحت تحویل میں لے کر کی گئی ہے جبکہ نئے قانون کے تحت مقدمات کی سماعت اور لاپتہ افراد کے معاملات پر پہلی درخواست بھی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مورخہ 23مئی 2009ء کو سائل کے بھائی محمد زبیر ولد محمد ازرم کو کچھ سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگوں نے مسجد کبریا ڈھوک چوہدریاں راولپنڈی کے باہر سے بعد ازنماز عشاء اٹھا لیا اور بعد ازاں مورخہ 25جون 2009ء کو بذریعہ اخباری اشتہارات سائل کے علم میں آیا کہ آئی پنجاب و آئی جی اسلام آباد نے 25 افراد کو گرفتار کیا ہے جس میں سائل کے بھائی کا نام بھی شامل تھا۔

(جاری ہے)

یہ کہ سائل نے اپنے طور پر پہلے تو کوشش کی اور تھانہ وغیرہ بھی گیا مگر سائل کے بھائی کو تھانے سے عدالت میں پیش کرنے کے بجائے کسی نامعلوم جگہ پر منتقل کر دیا گیا جبکہ سائل کا بھائی بے گناہ تھا ۔سائل نے اس بابت ایک درخواست تھانہ آر اے بازار میں دی کہ سائل کے بھائی کو بازیاب کروایا جائے مگر سائل کی درخواست پر کوئی کارروائی نہ ہوئی جس پر سائل نے ایک رٹ پٹیشن ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ میں دائر کی ۔

درخواست محمد عمر نے دائر کی ہے۔یہ کہ اسی دوران مسماة مسعود جنجوعہ چیئرمین پرسن ہیومن رائٹس اینڈ پبلک ٹرسٹ کی جانب سے مسنگ پرسن کی بابت ایک درخواست دائر کی گئی جس پر سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک کمیشن مقرر کیا جس میں آئی جی پنجاب کو طلب کیا گیا جس پر آئی جی پنجاب نے اپنے موقف میں کہا کہ ہم بازیابی میں بہت قریب ترین ہیں اور کچھ وقت مانگا اور دوبارہ پیشی پر بھی آئی جی پنجاب کو دو لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔

یہ کہ بعد ازاں سائل کے بھائی محمد زبیر کو ایک جھوٹے مقدے نمبر 225/5 ،تھانہ ویسٹریج میں ملوث کردیا گیا ۔جوڈیشل ریمانڈ کے دوران سائل کے بھائی کو شناخت پر پریڈ میں شناخت نہ ہونے پر سائل کے بھائی کو مقدمہ ہذا سے مورخہ27-08-2011 کو ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔یہ کہ بعد ازاں پولیس اسلام آباد نے ایک مزید جھوٹا مقدمہ نمبر 191 ،زیر دفعہ 7ATA،302/324 ،EA3/4 ،427/109 تھانہ آبپارہ سائل کے بھائی محمد زبیر درج کیا جو کہ ٹرائل کے بعد مقدمہ ہذا سے بھی باعزت طور پر بری ہوگیا۔

یہ کہ آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد نے پولیٹیکل ایجنٹ جمرود میں ایک درخواست دائر کی جس پر سائل کو وہاں سے بھی رہا کروا لیا۔یہ کہ اب سائل کا بھائی تمام مقدمات سے بھی بری ہو چکا ہے مگر اس کے باوجود سپیشل برانچ کے دو اہلکار عمران اور خرم ہر ماہ سائل کے گھر حاضری کے لئے آ جاتے ہیں۔یہ کہ مورخہ28-01-2014 کو تھانہ ریس کورس کے ایس ایچ او مصدق حسین نے فون نمبر0345-5124514 سے سائل کو فون کیا کہ آپ محمد زبیر کو ابھی تھانے میں پیش کریں جس پر سائل اور محلے کے تین چارافراد محمد زبیر کو تھانے میں لے گئے۔

جس پر ایس ایچ او مصدق حسین نے محمد زبیر کو تھانے کے ایک کمرے میں بند کر دیا اور سائل وغیرہ کو وہاں سے جانے کا کہا جس پر سائل نے ان سے دریافت کی کہ کس جرم میں یا کس بناء پر آپ ہمارے بھائی کو بند حوالات کررہے ہیں اس پر ایس ایچ او نے کوئی بھی خاص جواب نہ دیا اور ٹال مٹول کرنے لگا اور اب تک اس نے محمد زبیر کو غیر قانونی طور پر اپنی حضانت میں رکھا ہوا ہے۔

لہذا اندریں حالات استدعا ہے کہ سائل وسائل کی فیملی اور اس کے بھائی محمد زبیر کو پولیس کے مختلف ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھا جائے اور ہمیں ایک پرسکون زندگی بسر کرنے دی جائے۔ پولیس مختلف حیلے بہانوں سے سائل اور سائل کے بھائی محمد زبیر کو تنگ و پریشان کررہی ہے اور کئی کئی روز غیر قانونی طور پر اپنی خضانت میں رکھ کر ہمیں ذہنی و جسمانی پریشان کرتی ہے جس کا انہیں کوئی قانونی حق حاصل نہیں ہے ۔سائل اور سائل کے بھائی کی گواہی دینے کو محلے کا ہر فرد تیار ہے کہ ہم کسی بھی غیر قانونی وغیر اخلاقی کام میں ملوث نہیں لہذا ہمیں اور ہماری فیملی کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔