سینٹ ، پیپلز پارٹی کی میثاق جمہوریت کے مطابق ملک میں آئینی عدالت کے قیام کی قرارداد پر غور موخر ، پانچ سال پیپلزپارٹی کی حکومت رہی، معلوم نہیں کیوں انہوں نے اس حوالے سے کام نہیں کیا، راجہ ظفر الحق

منگل 4 فروری 2014 07:39

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔4فروری۔2013ء)سینٹ میں پیپلز پارٹی کی میثاق جمہوریت کے مطابق ملک میں آئینی عدالت کے قیام کی قرارداد پر غور موخر کر دیا گیا،قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ پانچ سال پیپلزپارٹی کی حکومت رہی، معلوم نہیں کیوں انہوں نے اس حوالے سے کام نہیں کیا،یہ آئینی ترمیم کا معاملہ ہے اس پر دوسری جماعتوں سے مشاورت کرنا پڑے گی کیونکہ اب اور سیاسی جماعتیں بھی پارلیمنٹ میں موجود ہیں۔

پیر کوسینٹ کے اجلاس کے دوران پیپلزپارٹی کے سینیٹر کریم احمد خواجہ نے قرارداد پیش کی کہ ”یہ ایوان سفارش کرتا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں محمد نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کیا جائے، خصوصاً تمام صوبوں سے ججوں کی مساوی تعداد کے ساتھ آئینی عدالت قائم کی جائے تاکہ آئینی معاملات کا فیصلہ کرے“۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے بال حکومت کے کورٹ میں ہے، قائداعظم نے بھی آئینی عدالت کے قیام کا ذکر کیا تھا، ابھی دونوں بڑی جماعتوں میں اچھی انڈر سٹینڈنگ ہے، بہت سے اہم آئینی معاملات پر دونوں جماعتیں مل کر کام کر سکتی ہیں۔

قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ میثاق جمہوریت دو بڑی جماعتوں کے درمیان ہوا تھا، اس کے بعد پانچ سال پیپلزپارٹی کی حکومت رہی، معلوم نہیں کیوں انہوں نے اس حوالے سے کام نہیں کیا اب اور سیاسی جماعتیں بھی میدان میں ہیں، کچھ کی صوبوں میں حکومت بھی ہے، یہ آئینی ترمیم کا معاملہ ہے اس پر دوسری جماعتوں سے مشاورت کرنا پڑے گی کیونکہ اب اور سیاسی جماعتیں بھی پارلیمنٹ میں موجود ہیں۔

قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے وقت دیگر جماعتوں کی رائے اس معاملے پر مختلف تھی اس لئے اسے 18 ویں ترمیم میں نہیں اٹھایا گیا، حکومت کو موقع ملنا چاہیے کہ اس معاملے پر دیگر جماعتوں سے مشاورت کر لے، حکومت دیگر سیاسی جماعتوں کو آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے اعتماد میں لے اور اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے اس سلسلے میں ہم بھی حکومت کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہیں۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ سابق چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اب بالادست آئین ہے پارلیمنٹ نہیں، اب آئین کو سپریم مانا جاتا ہے، یہ نئی بات سامنے آئی ہے، اب آئین کی تشریح بھی سپریم کورٹ کرتی ہے، اگر آئین وہ ہے جو سپریم کورٹ کہے تو سپریم کورٹ تو آئین کی تشریح میں ایک پارٹی ہوتی ہے اس طرح اس کی عزت و وقار پر حرف آ سکتا ہے اس لئے اس خدشہ کے پیش نظر ایک ایسی سپریم کورٹ ہونی چاہیے جو صرف آئین کی تشریح کرے نہ کہ وہ ازخود نوٹس لے یا دوسرے کیس نمٹائے، اسی لئے میثاق جمہوریت میں یہ شق رکھی گئی تھی، ہمارے دور میں یہ معاملہ مسلم لیگ (ن) کی تجویز پر موخر کیا گیا تھا۔ چیئرمین سینٹ نے قائد ایوان کی تجویز پر اس معاملے پر غور موخر کر دیا۔