سپریم کورٹ میں خفیہ اجتماعی قبر کیس میں ڈی سی عبدالوحید شاہ کی اجتماعی قبروں کی تصدیق، ایک شخص نے نام نہ بتانے کی شرط پر قبروں کی نشاندہی کی ہے‘ مجموعی طور پر 4 قبروں سے 13 لاشیں برآمد ہوئی ہیں جنہیں ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے‘ انسانی اعضاء پر کوے اور گدھ منڈلارہے تھے‘ ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے لاپتہ افراد کے لواحقین سے بھی رابطہ کیا تھا۔ ‘ ڈی این اے کی ٹیسٹ رپورٹ ۶ فروری کو ملے گی، ڈی سی عبدالوحید شاہ ، عدالت کا بلوچستان حکومت کے اقدامات پر اطمینان کا اظہار ، سماعت 7 مارچ تک ملتوی کمیشن اور ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹس عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت

بدھ 5 فروری 2014 04:53

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔5فروری۔2014ء) سپریم کورٹ نے خفیہ اجتماعی قبر کیس میں ڈی سی عبدالوحید شاہ نے اجتماعی قبروں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک شخص نے نام نہ بتانے کی شرط پر قبروں کی نشاندہی کی ہے‘ مجموعی طور پر 4 قبروں سے 13 لاشیں برآمد ہوئی ہیں جنہیں ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے‘ انسانی اعضاء پر کوے اور گدھ منڈلارہے تھے‘ ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے لاپتہ افراد کے لواحقین سے بھی رابطہ کیا تھا۔

ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے لاپتہ افراد کے لواحقین سے بھی رابطہ کیا تھا‘ ڈی این اے کی ٹیسٹ رپورٹ ۶ فروری کو ملے گی۔ انہوں نے یہ رپورٹ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے روبرو پیش کی۔ ڈی سی خضدار نے عدالت کو بتایا کہ میرے آفس میں ایک شخص آیا اور مجھے اجتماعی قبروں کے حوالے سے معلومات دیں۔

(جاری ہے)

پہلے دن دو لاشوں کی باقیات ملیں۔

ہمیں اگلے دن مزید 11 لاشیں ملیں۔ 5 لاشیں ایک قبر میں تھیں باقی قبروں میں 2 لاشیں تھے‘ حتمی رپورٹ ملنے کے بعد ہی پتہ چل سکے گا کہ یہ کہیں لاپتہ افراد تو نہیں تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو اس جگہ کا نام بتائیں جہاں پر قبریں تھیں۔ اس پر عدالت کو بتایا گیا کہ یہ سب باغیانہ‘ جندل اور دیگر علاقوں میں تھیں۔ عدالت نے پوچھا کہ عدالتی کمیشن کی سربراہی کون کررہا ہے جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ جج نور محمد عسکانی کررہے ہیں۔

سیکرٹری داخلہ بلوچستان نے بتایا کہ بلوچستان حکومت نے الگ سے انکوائری بھی شروع کردی ہے جبکہ کمیشن کی رپورٹ 30 روز میں آئے گی اور ڈی این اے رپورٹ (کل) 6 فروری کو ملے گی جس کے بعد مزید کارروائی کی جائے گی۔ عدالت نے بلوچستان حکومت کے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سماعت 7 مارچ تک ملتوی کردی اور ہدایت کی ہے کہ کمیشن اور ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹس عدالت میں پیش کی جائیں۔