ایم ڈیز اور سی ای اوز کا تقرر قواعد و ضوابط کے مطابق نہ ہونے سے ادارے تباہی و خسارے کا شکار ہو چکے ہیں،قائمہ کمیٹی صنعت و پیداوار میں انکشاف،من پسند افراد کے تقرر سے ملکی و قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا، اگران اداروں پر توجہ دی جاتی تو پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوتا ،ایڈیشنل سیکرٹری صنعت و پیداوار

ہفتہ 8 فروری 2014 08:29

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔8فروری۔2014ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ وزارت صنعت و پیداوار کے ذیلی اداروں کے ایم ڈیز اور سی ای اوز کا تقرر قواعد و ضوابط کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے ادارے تباہی و خسارے کا شکار ہو چکے ہیں۔ من پسند افراد کا تقرر کرکے ملکی و قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے ۔

اگران اداروں کی طرف توجہ دی جاتی تو ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوتا اور ملک کے درپیش مسائل خود بخود حل ہوجاتے ۔ تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کا اجلاس چیئرمین کمیٹی مشاہد اللہ خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤ س میں منعقد ہوا ۔ جس میں سینیٹرز سردار فتح محمد محمد حسنی ، کامران مائیکل کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری صنعت و پیداوار خضر حیات خان ، جوائنٹ سیکرٹری ارشد فاروق ، ایم ڈی یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت صنعت و پیداوار اور اس کے ذیلی اداروں کی کارکردگی اور فنگشنز پر بریفنگ دی گی۔ کمیٹی نے وفاقی وزیر اور سیکرٹری صنعت و پیداوار کی عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قائمہ کمیٹی کسی بھی حکومت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ موثر قانون سازی اور عوامی مسائل کے حل میں ان کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے اداروں کے سربراہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت یقینی بنایا کریں تاکہ جوبھی سفا رشات دی جائے ان پر عمل درآمد کرایا جائے۔

ایڈیشنل سیکرٹری صنعت و پیداوار خضر حیات خان نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وزارت کا کام صنعت و پیداوار کے سیکٹر کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی پالیساں مرتب کرنا ہیں جن کی بدولت اس ادارے اور اس کے ذیلی اداروں کی کارکردگی کو موثر اور عوام کے لیے فائدہ مند بنایا جاسکے انہوں نے کہا کہ وزارت صنعت و پیداوار کے ساتھ 22 ذیلی ادارے کام کررہے ہیں اور ان اداروں کے ایم ڈیز اور سی ای اوز کا تقرر شفاف اور قوائد ضوابط کے مطابق نہیں ہوتا من پسند لوگوں کو نوازا جاتا ہے کچھ اداروں میں تو لوگوں کو اضافی چارج دے کر نوازا گیا ہے ۔

جس کی وجہ سے تقریبا تمام ادارے تباہی و خسارے کا شکار ہو چکے ہیں ۔ پاکستان اسیٹل مل، نیشنل فرٹیلائزر کارپوریشن اور سمیڈا جسے اہم ادارے اس وزارت کے ماتحت ہیں ۔ اگر ان اداروں میں میرٹ پر تقرر کر دیا جائے تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے انہوں نے کہا کہ وزارت صنعت و پیداوار میں کل ملازمین کی تعداد 356ہے جن میں سے 303افراد کام پر ہیں باقی 53پوسٹیں خالی پڑی ہیں ۔

ایم ڈی پاکستان یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن نے اپنے ادارے کی کارکردگی اور فنگشنز بارے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ عوام کو منگائی کے خلاف ریلف پہنچانے کے لیے ملک میں 6ہزار یوٹیلیٹی سٹورز قائم ہوچکے ہیں اور 65گودام بنائے گئے ہیں ۔ہمارے کل ملازمین کی تعداد 14407 ہے ہمارا ایک بورڈ آف ڈائریکٹر ہے جس کے سات ممبر ہیں ملک کے طول وعرض میں عوام کو ریلف دینے کے لیے دس ذونل قائم کیے گئے ہیں ۔

ہر ذونل پانچ سے چھ ریجنز کو کنٹرول کرتا ہے اور لوگوں کو میعاری اور بہتر اشیاء فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے ۔ 2012-13میں اس ادارے نے 0.85 بلین کا منافع کمایا انہوں نے کہا کے ادارے کا بنیادی مقصد عوام کو ریلیف دینا ہے نہ کہ منافع کمانا یہ ادارہ اپنے منافعے سے ہی اپنے ملازمین کو تنخواہ دیتا ہے اور حکومت پر بوجھ نہیں ہے اور صرف ماہ رمضان میں ہماری اشیاء کی فروخت 20ارب روپے ہو جاتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ادارے میں گریڈ 20 کے چھ افیسر ز ہیں اور ان میں چار کو چھٹی کی درخواست بھی لکھنی نہیں آتی۔ ادارے میں مین پاور کا بہت مسلہ ہے ۔ ڈریکٹ بھرتی نہیں ہوسکتی صرف پرموشن کے ذریعے لوگ اُوپر جاتے ہیں اگر ہمارے ادارے میں لوگوں کا تقرر میرٹ اور قابلیت کی بنیا د پر کیا جائے اور ہمارے سسٹم کو کمپیوٹر رائز ڈ بنا دیا جائے تو یہ ادارہ اپنی کارکردگی کو دس گنا ذیادہ بہتر کر سکتا ہے ۔

چیئر مین کمیٹی مشاہد اللہ خان نے کہا کہ اگروزارت صنعت و پیداواراور اس کے ذیلی اداروں کو صحیح طریقے سے کنٹرول کیا جائے تو اس سے نہ صرف ملک کی بلکہ عام عوام کی تقدیر بدل سکتی ہے انہوں نے حکومت سے سفارش کی کہ ان اداروں کے مین پاور کو بہتر کیا جائے تاکہ یہ ادارے اپنی کارکردگی کو بہتر بنا سکے انہوں نے تجویز دی کہ یوٹیلیٹی سٹور کے ساتھ اگر میڈیکل سٹور اور گوشت کی دکانیں بنا دی جائیں تو لوگوں بہت ریلیف مل سکتا ہے ۔

متعلقہ عنوان :