ڈرون مخالف سرگرم کارکن کریم خان کو راولپنڈی سے اغواء کر لیاگیا ، تین روز گزرنے کے باوجود مقدمہ درج نہ ہوسکا ، میر علی کے رہائشی کریم خان کا بیٹا اور بھائی ڈرون حملے میں جاں بحق ہو چکے ہیں ، اسی ہفتے اپنی مہم کے سلسلے میں یورپ جانا تھا ، پولیس کا واقعہ سے لاعلمی کا اظہار

منگل 11 فروری 2014 04:11

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11فروری۔2014ء) ڈرون حملے کے نتیجے میں اپنے بے گناہ بیٹے اور بھائی کی ہلاکت پر ڈرون حملوں و امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے خلاف مہم شروع کرنے والے شمالی وزیر ستان میر علی کے رہائشی کریم خان کو نامعلوم ملزمان نے راولپنڈی سے اغواء کر لیا ۔ اہل خانہ کی جانب سے پولیس کو دی گئی درخواست پر تین روز گزرنے کے باوجود مقدمہ درج نہ کیا جاسکا جبکہ کریم خان کے برادر نسبتی کے مطابق اسے عین اس وقت اغواء کیا گیا جباس نے اسی ہفتے یورپ جانا تھا اور وہاں مختلف یورپی ممالک کی پارلیمنٹ سے ڈرون حملوں اور اس کی تباہ کاریوں بارے خطاب کرنا تھا۔

ادھر پولیس نے واقعہ سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ درخواست گزاروں کی جانب سے دی گئی درخواست میں بتایا گیا ہے کہ اغواء کاروں میں سے کچھ لوگ پولیس کی وردی میں اور کچھ سادہ لباس میں ملبوس تھے جس کے متعلق مکمل تحقیقات کی گئی ہیں مگر پنجاب پولیس نے ایسی کسی کاروائی میں حصہ نہیں لیا۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق شمالی ویزیستان کے ضلع میر علی کے گاوٴں مچھی خیل کے مستقل سکونتی کریم خان کو چار اور پانچ فروری کی درمیانی شب راولپنڈی سے اغواء کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے کریم خان کے بردر نسبتی کی جانب سی تھانہ نصیر آباد میں دی گئی درخواست میں موٴقف اختیار کیا گیا ہے کہ”کریم خان والدگل خان گاوٴں مچھی خیل،ضلع و تحصیل میر علی شمالی وزیر یستان کو ان کی حالیہ رہائش گاہ ڈھوک مستقیم سے 04اور 05فروری کی درمیانی شب رات 12:30منٹ 10سے 15نامعلوم افراد جن میں سے کچھ پولیس کی وردی اور کچھ سادہ لباس میں ملبوس تھے ،اور ان افراد کے پاس جدید اسلحہ موجود تھا نے آکر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر دروازہ کھولنے سے قبل ہی مذکورہ افراد نے دروازہ توڑ دیا اور گھر میں داخل ہوکر اپنی شناخت بتائے بغیر کریم خان کو زبرستی اٹھا کر لے گئے،واقعہ کے بعد مقامی پولیس کو بھی اطلاع دی گئی مگر پولیس نے ایسی کسی کاروائی کی تصدیق نہیں کی ،اس واقعہ کے دو چشم دید گواہ بھی موجود ہیں “۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ دوسال قبل مسمی کریم خان نے اپنے بیٹے ذہین اللہ اور بھائی آصف اقبال ڈرون حملے میں ناحق شہادت کے خلاف امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے خلاف قانونی کاروائی کا آغاز کیا تھا اور اس بابت ایک درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے جس کی آئندہ سماعت 11فروری کو ہونی ہے، لہذا واقعہ میں چادر چاردیواری کا تقدس پامال کرنے اور بے گناہ شہری کو اغواء کرنے کا مقدمہ فی الفور درج کیا جائے اور کریم خان کی بازیابی کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں“۔

اس حوالے سے ”خبر رساں ادارے“کے رابطہ کرنے پر تھانہ نصیر آباد کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ مذکورہ درخواست پر درخواست گزاروں نے اپنی عارضی رہائش گاہ کا پتہ نہیں لکھا جس کے باعث پولیس ابھی تک جائے وقوعہ پر نہیں جاسکی تاہم درخواست گزاروں کو فون کر کے اس ضمن میں بلایا ہے تاکہ پولیس کاروائی کا آغاز کر سکے۔پولیس کے مطابق درخواست گزاروں کے پولیس پر الزام کے باعث مختلف مقامی پولیس سے بھی اس حوالے سے پتا کیا گیا ہے تاہم ایسی کوئی کاروائی پنجاب پولیس کی جانب سے کیے جانے کی تصدیق نہیں ہوئی البتہ پولیس کی یونیفارم کا ملزمان کی طرف واردات کے لئے استعمال کرنے کا غالب امکان ہے۔

اس حوالے سے ”خبر رساں ادارے“ کے رابطہ کرنے پر کریم خان کے برادرنسبتی دلبر خان والد گل خان نے ”خبر رساں ادارے“کو بتایاکہ” 31دسمبر 2009ء کی رات ساڑھے نوبجے کریم خان کی رہائش گاہ پر ڈرون حملہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں ان کا 21سالہ بیٹا ذہین للہ ولد کریم خان جو حافظ قرآن و میٹرک پاس تھا اور مقامی سکول میں چوکیدار ی کی نوکری کرتا تھا ناحق شہید کیا گیا تھا اور اس حملہ میں اس کا بھائی آصف اقبال ولد گل خان جو کہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم اے انگش کا ڈگری یافتہ تھا اور مقامی سکول میں سی ٹی ٹیچر تھا مارا گیا تھا“۔

دلبرخان کے مطابق ”کریم خان نے اس واقعہ کے بعد سی آئی اے اور ڈرون حملوں کے خلاف رضاکارانہ طور پر مہم کا آغاز کر رکھا تھا اور اس حوالے سے اس نے اسلام آباد و پشاور میں متعدد مظاہر ے بھی کیے تھے جبکہ وہ اس حوالے سے امریکہ بھی جاکر ڈرون حملوں کے خلاف شعور اجاگر کرنا چاہتا تھا تاہم امریکی سفارتخانے نے ان کی ویزہ کی درخواست منظور نہیں کی تھی“۔

انہوں نے خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ ” کریم خان نے اسی ہفتے یورپ بھی جانا تھا جہاں اس نے مختلف یورپی ممالک کے پارلیمنٹ سے خطاب ڈرون حملوں کی تباہ کاریوں اور ڈرون حملوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں بارے خطاب کرنا تھا تاہم ان کو عین ایسے وقت میں اغواء کیا جانا سوالیہ نشان ہے“۔خبر رساں ادارے کو کریم خان کے بارے ملنے والی معلومات کے مطابق کریم خان کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں،وہ 1967ء میں شمالی ویزیستان کے نواحی گاوٴں مچھی خیل میں پیدا ہوا ،قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم اے عربی کی ڈگری کی جبکہ اسلامک یونیورسٹی سے ایم فل بھی کیا تاہم ایم فل کی ڈگری مکمل کرنے بارے مکمل معلومات نہیں ملیں، کریم خان گزشتہ ایک برس سے راولپنڈی کے علاقہ ڈھوک مستقیم میں اپنے والدین اور بیوی بچوں سمیت ایک ڈبل سٹوری مکان کے اوپر والے فلور میں رہائش پذیر تھا جبکہ ایک مقامی اخبار اور الجزیرہ ٹی وی کے لئے بطور صحافی فرائض سرانجام دے رہا تھا۔

کریم خان کے وکیل نے اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں عدالت نے پنجاب پولیس، سیکرٹری داخلہ اور پنجاب حکومت کو 12فروری کے لئے نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا ہے۔کریم خان کے اہل خانہ نے چیف جسٹس آف پاکستان سے واقعہ کا ازخود نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔

متعلقہ عنوان :