انگوٹھوں کی تصدیق ، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے تحریری جواب طلب کر لیا، اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری،تحریک انصاف کے دھاندلی کے الزامات اگر درست بھی تسلیم کرلئے جائیں تب بھی قانون کے مطابق انہیں الیکشن ٹربیونل سے رجوع کرنا پڑے گا، چیف جسٹس، انتخابات ہوچکے اب یہ معاملات سننے کا اختیار صرف الیکشن ٹربیونلز کو ہی ہے،جسٹس خلجی عارف، الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کو مدنظر رکھ کر انتخابات نہیں کرائے‘حامد خان ،الیکشن کمیشن کا کردار شرمناک ، سپریم کورٹ سے انصاف کی امید ہے ،عمران خان،چوروں ڈاکوؤں کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے نہ روکا گیا تو جمہوریت کو خطرات لاحق ہوجائیں گے، اگر قانونی راستے بند ہوگئے تو پھر ہم سڑکوں پر ہونگے‘ تمام شہر بند کردینگے،میڈیا سے گفتگو

بدھ 12 فروری 2014 07:40

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔12فروری۔2014ء) سپریم کورٹ نے چار حلقوں میں انگوٹھوں کی تصدیق بارے تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان سے عام انتخابات کے دوران ڈیوٹی دینے والے وفاقی افسران و ملازمین کا ریکارڈ پندرہ روز میں طلب کر لیا ہے اور الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ عدالت نے انتخابی عملے میں وفاقی اور صوبائی ملازمین کو ڈیوٹی میں شامل کرنے کا حکم دیا تھا اس پر کس حد تک عمل کیا گیا‘ عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کیلئے طلب کیا ہے جبکہ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف صرف چار حلقوں میں دھاندلی ثابت کرکے پورے انتخابات کو غیر شفاف کیسے قرار دلوائے گی اور ان کی چار حلقوں کی یہ کوشش پورے انتخابات کو کور نہیں کرتی‘ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دئیے کہ انتخابات ہوچکے اب یہ معاملات سننے کا اختیار صرف الیکشن ٹربیونلز کو ہی ہے۔

(جاری ہے)

اگر چار حلقوں میں دھاندلی ثابرت ہوگئی تو عدالت کو مزید حکم بھی دینا پڑے گا‘ کیا ہم الیکشن کمیشن کو مستقبل کے حوالے سے ہدایات دے دیں کہ آئندہ عام انتخابات میں اس طرح کی کوئی دھاندلی نہ ہو جبکہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے وفاقی ملازمین کی دوران انتخابات ڈیوٹی کیلئے عدم دستیابی کے الیکشن کمیشن کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ تحریک انصاف کے دھاندلی کے الزامات اگر درست بھی تسلیم کرلئے جائیں تب بھی قانون کے مطابق انہیں الیکشن ٹربیونل سے رجوع کرنا پڑے گا۔

انہوں نے یہ ریمارکس منگل کے روز دئیے جبکہ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس دوران تحریک انصاف کی سربراہ عمران خان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل کا آغاز کیا اور حلقوں میں انتخابات کے حوالے سے عدالت میں تفصیلات پیش کیں۔ انہوں نے اپنی ماتحت عدلیہ کو دی جانے والی درخواستوں کا بھی ذکر کیا۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ الیکشن ٹربیونل نے لاہور اور ملتان کے حلقے کے حوالے سے الگ الگ سماعت کی۔ کیا آپ اس سے آگاہ ہیں اس پر حامد خان نے کہا کہ جی ہاں وہ اس سے مکمل طور پر آگاہ ہیں۔ 7نومبر 2013ء کا حکم نامہ بھی پڑھ کر سنایا۔ الیکشن کمیشن اور الیکشن ٹربیونل نے علیحدہ علیحدہ پیراوائز کمنٹس داخل کئے ہیں۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ ٹربیونل کے کمنٹس ہم تک نہیں پہنچے۔

جسٹس عظمت نے کہا کہ ٹربیونل نے کہا کہ شہادت کے بغیر درخواست کی سماعت نہیں کرسکتے‘ پہلے شواہد دیں پھر سماعت کریں گے۔ انہیں آپ کو سننا چاہئے تھا۔حامد خان نے کہاکہ شواہد تو موجود تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے وکیل نے کہہ دیا کہ معاملہ الیکشن کمیشن کو ارسال کیا جائے تاکہ وہ کسی اور ٹربیونل کو بھجوادیا جائے۔ حامد خان نے کہا کہ 21 دن میں فیصلہ کرنا تھا تاہم نئی بات ڈال دی گئی کہ پہلے تجاویز جمع کروائیں اور اب جاکر ایک اور ٹربیونل کو بھجوادیا گیا ہے۔

ہم یہ شکایت لے کر نہیں آئے۔ ہم لارجر پکچر پیش کرنے آئے تھے۔ ہم تو صرف چار حلقوں کی بات کرنے آئے ہیں۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ جب شواہد موجود ہیں تو پھر آپ خود کو چار حلقوں تک کیوں محدود کررہے ہیں؟ لارجر پکچر سامنے آنے کے عبد چار حلقوں کی شخصیات فضول تھیں سب کو چیلنج کیا جاتا۔ حامد خان نے کہا کہ پاکستان ورکرز پارٹی کیس کے فیصلے کے تحت ہی ان کا کیس فائل کرتا ہے اس کے مطابق ہی فیصلہ کردیا جائے۔

عدالت نے کہا کہ آپ اپنی مرضی کے ٹربیونل کا فیصلہ چاہتے تھے اسلئے معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوایا گیا اور انہوں نے ایک اور ٹربیونل کو معاملہ ریفر کیا۔ حامد خان نے کہا کہ ریزرویشن‘ ڈیکلریشن اور ہدایات کا ذکر پاکستان ورکرز پارٹی میں کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے شفاف انتخابات کرانے تھے‘ یہ انتخابات مذاق تھے کوئی مانیٹرنگ نہیں کی گئی۔

مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں نے وہ اخراجات جو الیکشن کمیشن نے مقرر کئے تھے ان کی صریحاً خلاف ورزی کی اور اتنے ہی اخراجات ایک دن میں ہی کر ڈالے تھے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ یہ تو انتخابات کے دوران ہی الیکشن کمیشن نے کرنا تھا اب تو الیکشن ہوگئے اب آپ کیا چاہتے ہیں۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جتنے بھی الزامات آپ نے لگائے ہیں یہ آپ درست بھی ہوسکتے ہیں۔

آپ یہ سب 225 کے تحت درخواست دائر کرکے ریلیف حاصل کرسکتے تھے جو آپ نے درخواستیں دائر کررکھی ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کو مدنظر رکھ کر انتخابات نہیں کرائے۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ اب آپ کیا چاہتے ہیں جب ہم مستقبل کیلئے کہہ دیں کہ آئندہ ایسا نہ ہو اور جو کچھ وہ کرچکے ہیں اسے غلط کیسے قرار دیں۔ حامد خان نے کہا کہ ہم سارے انتخابات کو کالعدم قرار نہیں دلوانا چاہتے۔

ہم صرف چار حلقوں کا جائزہ اور تقابل چاہتے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ آپ صرف چار حلقوں کی بات کرکے سارے الیکشن کا جائزہ کیسے لے سکتے ہیں۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ اگر چار حلقوں کا نتیجہ نکل آیا کہ دھاندلی ہوئی ہے تو پھر آگے کیا ہوگا اس کے بعد ہمیں کوئی تو حکم جاری کرنا پڑے گا۔ حامد خان نے کہا کہ ہم عدالتی احکامات پر عمل چاہتے ہیں۔

جسٹس خلجی نے کہا کہ ہم نے سیاسی جماعتوں کو ہدایات جاری کی تھیں کہ اگر وہ اس پر عمل نہیں کرتیں تو اس میں عدالت کا کیا قصور ہے۔ حامد خان نے کہا کہ اس کا مطلب تو واضح ہے کہ عدالت اپنے احکامات پر عمل نہیں کراسکتی۔ تمام پولنگ سٹیشنوں پر وفاقی ملازمین کو لگایا جاتا تھا لیکن ایک بھی نہیں لگایا گیا‘ جواب میں حکومت نے کہا کہ ملازمین نہیں مل پائے تھے جس کی وجہ سے انہیں تعینات نہیں کیا گیا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ جب ایک بار الیکشن ہوجائیں تو انتخابات کا فیصلہ الیکشن ٹربیونل نے کرنا تھا۔ حامد خان نے کہا کہ واپڈا ملازمین کا کہا گیا کہ وہ ڈیوٹی پر نہیں لگائے جاسکتے یہ جواب سمجھ سے بالاتر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے کون پیش ہوئے ہیں۔ انہوں نے سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان کے پیش ہونے پر ان سے پوچھا کہ انتخابات کے دوران وفاقی ملازمین کو تعینات کیا گیا۔

سیکرٹری نے بتایا کہ یہ کام ریٹرننگ آفیسر کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملازمین کی فہرست تو الیکشن کمیشن نے دینی ہے مگر اس میں سے ریٹرننگ آفیسر چناؤ کرتے ہیں۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ہم نے آپ کے احکامات سب تک پہنچادئیے تھے۔ آر اوز نے اپنی صوابدید کے مطابق ملازمین لئے تھے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ملازمین دینے سے کب انکار کیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ریکارڈ پیش کرسکتے ہیں۔ سیکرٹری نے کہا کہ ہم ریکارڈ پیش کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی واضح ہدایات تھیں‘ ان پر کتنا عمل کیا گیا‘ آپ کیلئے وفاقی ملازمین کو حاصل کرنا مشکل تھا یا نہیں آپ کا جواب تسلی بخش نہیں آپ نے ملازمین کے حصول کیلئے کیا کیا تھا اس حوالے سے جواب دیں۔ کیا آپ نے اس کیس میں کوئی وکیل مقرر کیا ہے‘ اگر نہیں کیا تو پھر اٹارنی جنرل کو اس میں معاونت کیلئے طلب کریں گے۔

چیف جسٹس نے حکم نامہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ حامد خان نے پاکستان ورکرز پارٹی کا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور بتایا کہ عدالتی واضح ہدایات کے باوجود الیکشن کمیشن نے عوامی نمائندگان ایکٹ کے تحت انتخابات نہیں کرائے۔ عدالتی فیصلے پر عمل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کے کمنٹس کا حوالہ دیا جن میں انہوں نے بتایا تھا کہ عدالتی احکامات جوکہ ملازمین کی تقرری کے حوالے سے تھے‘ یہ ملازمین وفاق اور صوبوں دونوں کیلئے جان تھے مگر اس پر عمل نہیں کیا گیا۔

سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے بھی کوششیں کی تھیں کہ وفاق اور صوبوں کے ملازمین کو حلقوں میں ڈیوٹی پر تعینات کیا جائے لیکن سابق حکومت کے ملازمین دستیاب نہیں تھے جس کی وجہ سے ان کی ڈیوٹی نہیں لگائی گئی۔ الیکشن کمشن اس حوالے سے دستیاب سٹاف اور افسران کی فہرست آر اوز کو پیش کرنا ہوتی ہے جس میں سے وہ اپنی مرضی کے سٹاف کا انتخاب کرتا ہے۔

انہوں نے فہرست اور دیگر ریکارڈ پیش کرنے کیلئے وقت مانگا ہے۔ پندرہ روز میں جواب سپریم کورٹ میں داخل کیا جائے اور اس کیس کو مارچ کے پہلے ہفتے میں لگایا جائے۔ اٹارنی جنرل کو نوٹس بھی جاری کردیا گیا۔ادھرپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے عوامی مینڈیٹ چرانے والوں کیخلاف غداری کا مقدمہ چلنا چاہئے‘ الیکشن کمیشن کا کردار شرمناک ہے‘ سپریم کورٹ سے امید ہے کہ وہ انصاف دے گی‘ انتخابات میں مرضی کے امپائر مقرر کرکے تاریخی دھاندلی کی گئی‘ جہاں مجرموں کو سزائیں نہیں ملتیں وہاں جرم پھلتا ہے‘ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اقدامات سے مایوسی ہوئی‘ چور ڈاکوؤں کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے نہ روکا گیا تو جمہوریت کو خطرات لاحق ہوجائیں گے‘ اگر قانونی راستے بند ہوگئے تو پھر ہم سڑکوں پر ہوں گے‘ ہم تمام شہر کو بند کردیں گے‘ الیکشن کمیشن کا کام شفاف انتخابات کرانا تھا جو نہیں کرائے گئے۔

نئے چیئرمین نادرا کو ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ہیں ہمیں پرانے چیئرمین پر اعتماد تھا۔ منگل کو سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں دھاندلی کے حوالے سے ہم نے جو کیس عدالت میں دائر کیا ہے یہ نہایت ہی اہم کیس ہے۔ پاکستان میں ابھی تک صاف و شفاف الیکشن نہیں ہوئے۔ صاف و شفاف ووٹوں کے بغیر ملک میں جمہوریت نہیں آسکتی۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کا کردار شرمناک ہے۔ ہمیں اب الیکشن کمیشن سے نہیں صرف سپریم کورٹ سے امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ چار میں سے دو حلقوں میں الیکشن کی تصدیق کروائیں‘ دیکھتے ہیں کہ عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خوشاب کے ضمنی انتخابات میں تاریخ ساز دھاندلی کی گئی ہے الیکشن کمیشن نے لوگوں کا مینڈیٹ چرایا تھا۔

عوامی مینڈیٹ چرانا بھی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف بھی غداری کا مقدمہ چلنا چاہئے اور آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ان کیخلاف فوری کارروائی ہونی چاہئے۔ عمران خان نے کہا کہ فخرالدین جی ابراہیم کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ ہر جگہ ہر کسی نے اپنی مرضی کے امپائر مقرر کرواکر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کئے۔ چار حلقوں میں تحقیقات سے تمامتر صورتحال واضح ہوجائے گی۔

کرپشن کے خاتمے کے بغیر جمہوریت کا کوئی مستقبل نہیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان کے ہر شہر میں لوگ موجود ہیں۔ ہم جب چاہیں شہر بند کرواسکتے ہیں۔ اگر دھاندلی کی تحقیقات کرائی جائیں تو 1977ء میں کی گئی دھاندلی کو لوگ بھول جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 35 پنکچروں کا معاملہ پہلے ہی سامنے آچکا ہے۔ ہر جگہ دھاندلی کی گئی اور ایسا ہم کب تک برداشت کرسکتے ہیں‘ حکومت کو جواب دینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے ٹھپے پہ ٹھپہ لگوایا تبھی تو آج وہ حکومت میں ہے،سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ ذکاء اشرف کی برطرفی پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ذکاء اشرف کی تبدیلی ڈرامہ ہے۔ 35 پنکچر لگانے والے نجم سیٹھی کو دوبارہ چیئرمین پی سی بی لگادیا گیا ہے۔