سپریم کورٹ نے ایل پی جی نظرثانی کیس میں بیرسٹر اعتزاز احسن کے پیش ہونے کی استدعاء مسترد کر دی ، خودکش جیکٹ پہن کر عدالت پر خودکش حملہ کرنے سے تو ر ہا ،عدالت نے بعض مقدمات میں کونسل تبدیل کرنے کی اجازت دی تھی انہیں بھی اجازت دی جائے، اعتزاز احسن،سو ری ،، بیرسٹر اعتزاز احسن‘ آپ کو نظرثانی کیس میں پیش ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے، عدا لتی ریما رکس ، جوائنٹ ایڈونچر کے وکیل طارق رحیم سے ایک ہفتے میں کیس کا تمام ریکارڈ طلب

جمعہ 14 فروری 2014 03:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14فروری۔2014) سپریم کورٹ کے جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے ایل پی جی نظرثانی کیس میں بیرسٹر اعتزاز احسن کے پیش ہونے کی استدعاء مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ،،سو ری ،، بیرسٹر اعتزاز احسن‘ آپ کو نظرثانی کیس میں پیش ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے جبکہ عدالت نے جوائنٹ ایڈونچر کے وکیل طارق رحیم سے ایک ہفتے میں کیس کا تمام ریکارڈ طلب کر لیا ہے‘ بیرسٹر اعتزاز احسن نے عدالت سے استدعاء کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خودکش جیکٹ پہن کر عدالت پر خودکش حملہ کرنے سے تو رہے‘ انہوں نے چیف جسٹس سے درخواست کی تھی اس کیس کو کسی اور بنچ میں لگایا جائے تاہم ان کی یہ درخواست مسترد کردی گئی اور موکل کو ان کی مرضی کے وکیل سے محروم کردیا گیا۔

(جاری ہے)

جمعرات کو سماعت کے دوران اعتزاز احسن کی جانب سے نظرثانی کیس میں بطور وکیل پیش ہوئے اور وکیل تبدیل کرنے کی استدعاء یہ کہہ کر عدالت نے مسترد کردی کہ عدالت نے ڈاکٹر بابر اعوان کو غیر معمولی حالات کی پیش نظر پیش ہونے کی اجازت دی تھی۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ اگر آپ چیف جسٹس بنچ میں پیش ہوجاتے تو اس سے آپ کا کچھ بھی نہ بگڑتا اور وکیل بھی تو پیش ہوتے رہے ہیں اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ وہ ایسانہیں کرسکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان کا کیس بہت اہم ہے۔ عدالت نے بعض مقدمات میں کونسل تبدیل کرنے کی اجازت دی تھی انہیں بھی اجازت دی جائے اس پر عدالت نے کہا کہ Sorry بیرسٹر اعتزاز ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ عدالت کا فیصلہ ہے وہ اس پر خودکش حملہ تو کرنے سے رہے اس پر جسٹس گلزار نے کہاکہ اگر آپ چیف جسٹس کے سامنے یہ معاملہ رکھتے تو خودکش حملے کی ویسے بھی ضرورت نہ رہتی۔ اس دوران عدالت نے ایل پی جی کیس میں جوائنٹ ایڈونچر کے وکیل خواجہ طارق رحیم کو ہدایت کی کہ وہ اس کیس سے متعلقہ تمام ریکارڈ عدالت میں پیش کریں۔ عدالت اس کیس کی سماعت ایک ہفتے کے بعد کرے گی۔