مذاکرات کے دوسرے مرحلے سے پہلے سیز فائر ہماری اولین اور مشترکہ ترجیح ہے ،پروفیسر ابراہیم،پوری قوم کی بھی یہی خواہش ہے کہ فوری سیز فائر کا اعلان کردیا جائے ، جنگ بندی پر طالبان اور وفاقی حکومت سے بات چیت جاری ہے، بہت جلد قوم کو خوشخبری ملی گی، جماعت اسلامی نوشہرہ کے بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے کنونشن اور میڈیا سے گفتگو

پیر 17 فروری 2014 08:16

نوشہرہ رپورٹ (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17فروری۔2014ء) امیر جماعت اسلامی صوبہ خیبر پختونخوا و رکن طالبان مذاکراتی کمیٹی پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا ہے کہ مذاکرات کے دوسرے مرحلے سے پہلے سیز فائر ہماری اولین اور مشترکہ ترجیح ہے ،پوری قوم کی بھی یہی خواہش ہے کہ فوری طور پر سیز فائر کا اعلان کردیا جائے ،مذاکراتی عمل کو کامیابی سے ھمکنارکرنے کے لیے تمام ادارے اور قومی شخصیات کو صبر وتحمل سے مذاکراتی کمیٹیوں کا ساتھ دینا چاہیے۔

جنگ بندی پر طالبان اور وفاقی حکومت سے بات چیت جاری ہے۔ بہت جلد قوم کو خوشخبری ملی گی۔ دونوں کمیٹیاں اس بات پر متفق ہیں کہ مذاکرات ہر صورت جاری رکھے جائیں ،اب تک کے مذاکراتی مرحلوں کے حوالے سے سو فیصد پر امید ہوں کہ مذاکرات کامیاب ہوجائینگے ،مذاکرات سبوتاژ کرنے والی قوتوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑیگا،حکومت سے مزاکرات کے دوسرے مرحلے میں آج طالبان کمیٹی حکومتی کمیٹی کو طالبان کی جانب سے سیز فائر کے اعلان پر آمادگی کا پیغام پہنچائیگی ان خیالات کا اظہار پروفیسر محمد ابراہیم خان نے نوشہرہ میں جماعت اسلامی ضلع نوشہرہ کے بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے کنونشن اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا اس موقع پر جماعت اسلامی ضلع نوشہرہ کے امیر معراج الدین خان ،حاجی عنایت الر حمان اور قاری محمد انور بھی موجود تھے پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہا کہ مذاکرات جاری ہیں اور دونوں کمیٹیاں آپس میں مشاورت اور روابط میں ہیں اور اس وقت مذاکرات اہم مرحلے میں ہیں اور مذاکرات ناکام بنانے کی بھی بھرپور کوششیں ہورہی ہیں انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے اب کوشش ہے کہ سیز فائر کا اعلان ہوجائے اور یہ قوم کی بھی سب سے بڑی خواہش ہے اور قوم سیز فائر کا اعلان سننے کی خواہش مند ہے جسکے لئے روابط جاری ہیں انہوں نے کہا کہ پوری قوم دعا کرے ہمیں امید ہے کہ قوم بہت جلد مذاکرات کی کامیابی کی خوشخبری سنیگی،بیرونی قوتیں مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں اور انشاء اللہ اب مذاکرات سبوتاژگی ناکام بنانے کی مشترکہ پالیسی چلے گی کیونکہ طالبان اور حکومت دونوں مذاکرات کی کامیابی چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ اس گھمبیر مسئلے میں ہم سب کو ہوش سے کام لینا ہوگا اور بحیثیت پاکستانی اور ایک مسلمان ان مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے کوشش کرنی چاہئے ،پروفیسرمحمد ابراھیم نے کہاکہ اس وقت شرائط کے لحاظ سے ایک فریق پہاڑ کی چھوٹی پر ہے اور دوسری فریق پہاڑ کے تہدمیں بیٹھا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

ان دونوں کو اپس میں ملانا اور مذاکرات کے میز پر لانا ہمار دینی اور قومی فریضہ ہے۔انہوں نے کہاکہ نواز شریف اخلاص کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں اور طالبان کی قیادت بھی مذاکرات مخلص اور سنجیدہ ہے ۔ تاہم کچھ ممالک اور بیرونی ایجنسیاں مذاکرات کو سبوتاژ کرانے کے درپے ہیں اور تمام سیاسی قیادت اور علماء کرام اس مشکل گھڑی میں قوم ازمایش سے نکالنے میں کردار ادا کرلیں۔

صوبائی امیر پروفیسرمحمدابراھیم خان نے کہاکہ جماعت اسلامی 2003/2004سے اب تک مذاکرات کے ذریعے امن کی بحالی کی بات کرتی ہے۔اور اپریشن اور طاقت کو بگاڑکا ذریعہ سمجھتی ہے اور اب بھی ہم امن کی خاطر مذاکرات ہی کو اپشن سمجھتے ہیں ۔ اپریشن کی مخالفت پہلے بھی کی ہے اور آئندہ بھی اپریشن کے خلاف آواز اٹھائیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ طالبان اور حکومت اپنی اپنی شرائط میں نرمی پیدا کرنے کے لیے امادہ ہیں اس وقت میڈیا اور شوشل میڈیا قیا س آرائیوں اور اپنی اپنی خواہش کے مطابق کچھ لوگ مذاکرات کو ناکام بنانے کے درپے ہیں ۔

جماعت اسلامی کا اصولی موقف ہے اور ہم سیاسی پوائینٹ سکورنگ کو پس پشت ڈال کر ملک میں بدامنی کے خاتمے کے خاطر مذاکراتی عمل کا حصہ ہیں ۔ اور ہمیشہ انہی کوشیشوں کو جاری رکھیں گے۔ ابھی تک 50ہزار سے زیادہ لاشیں اٹھائے ہیں اور خصوصاً خیبر پختونخوا اور پشاور کے لوگوں بہت زیادہ مالی ، جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور جماعت اسلامی اور الخدمت فاؤنڈیشن کے کارکن لاشیں اٹھانے ، تابوت اور کفن فراہم کرنے اور زخمی اور یتموں اور بیواؤں کی خدمت کرچکی ہے اور مشکل کی گھڑی میں جماعت اسلامی نے قوم کا ساتھ دیا ہے۔