سابق دور میں اداروں کی اتنی لوٹ کھسوٹ کی گئی ہے کہ ہم چاہیں بھی تو ایساا نہیں کر سکتے ، سینیٹر مشاہد اللہ خان ، ملک کو کھوکھلا کیا گیا،حکومت منافع بخش اداروں کی نجکاری نہیں کر رہی ،ملک میں نجکاری کے نام پر پوائنٹ سکورنگ کی جا رہی ہے،پیپلز پارٹی کا اپنا منشور ہے کہ پوری اکانومی پرائیویٹائز کریں گے، 24 اپریل 2011ء کو پیپلزپارٹی نے سی سی آئی میں 31 اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیاہم اس فیصلے کو آگے بڑھا رہے ہیں ، آج مخالفت کرنے والے ارکان نے اس وقت شور کیوں نہیں مچایا، ہم پیپلزپارٹی کے گند کو صاف کر رہے ہیں، حکومت مزدوروں کو جیلوں میں ڈالے گی نہ ہی یونینز پر پابندی لگائی جائے گی، نجکاری کرتے ہوئے کارکنوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا، پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنائیں گے، ایوان بالا میں نجکاری پالیسی پر تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے اظہار خیال

منگل 18 فروری 2014 07:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18فروری۔2014ء) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور سینٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ سابق دور میں اداروں کی اتنی لوٹ کھسوٹ کی گئی ہے کہ ہم چاہیں بھی تو ایساا نہیں کر سکتے ، ملک کو کھوکھلا کیا گیا،حکومت منافع بخش اداروں کی نجکاری نہیں کر رہی ،ملک میں نجکاری کے نام پر پوائنٹ سکورنگ کی جا رہی ہے،پیپلز پارٹی کا اپنا منشور ہے کہ پوری اکانومی پرائیویٹائز کریں گے، 24 اپریل 2011ء کو پیپلزپارٹی نے سی سی آئی میں 31 اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیاہم اس فیصلے کو آگے بڑھا رہے ہیں ، آج مخالفت کرنے والے ارکان نے اس وقت شور کیوں نہیں مچایا، ہم پیپلزپارٹی کے گند کو صاف کر رہے ہیں، حکومت مزدوروں کو جیلوں میں ڈالے گی نہ ہی یونینز پر پابندی لگائی جائے گی، نجکاری کرتے ہوئے کارکنوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا، پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنائیں گے۔

(جاری ہے)

پیر کوسینٹ کے اجلاس میں سینیٹر میاں رضا ربانی کی نجکاری پالیسی کو زیر بحث لانے کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ پرائیویٹائزیشن قومی مسئلہ ہے، اس میں سیاست نہیں کرنی چاہیے، پہلی پرائیویٹائزیشن پالیسی آر او 1994ء میں کسی اور نے نہیں پیپلزپارٹی نے دی، آج اس کے ارکان مخالفت کر رہے ہیں، پیپلزپارٹی کے منشور ہیں کہ پوری اکانومی پرائیویٹائز کریں گے، اگر کوئی جائز بات ہے تو اسے تسلیم کیا جائے گا، میاں رضا ربانی نے اپنی تقریر میں بہت منشاء منشاء، منشاء کے نام کے آدمی کی ولادت 8 ماہ پہلے نہیں ہوئی وہ زرداری صاحب کے بھی بہت دوست رہے ہیں، ان سے 5 سال بجلی خریدتے رہے تو اب ہم بل دے رہے ہیں اور یہ پوائنٹ سکورنگ کر رہے ہیں اگر اعتراض ہے تو ان سے بجلی نہ خریدتے، نفع بخش ادارے نہیں بیچے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آج سٹیل ملز کے کارکنوں کو دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں، اس کا ذمہ دار کون ہے، لوگوں کو بھرتی کرنا اچھی بات ہے، اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ کارکنوں کے قانونی حقوق متاثر نہ ہوں، لوگ گولڈن ہینڈ شیک کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ ماضی میں اداروں کی لوٹ کھسوٹ کی گئی ہے، پچھلے ادوار میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ، چھ سالوں میں 25، 30 ہزار سکیمیں ایسی ہیں جس میں 90 فیصد میں پیسہ کھایا گیا ہے، اتنی بڑی کرپشن کو پکڑنے کے لئے تو وسائل بھی نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کتنے لوگوں کو پکڑے گا اس کے پاس تو اتنے لوگ بھی نہیں ہیں، 24 اپریل 2011ء کو پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں نے سی سی آئی میں 31 اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا تھا، اس وقت کیوں شور نہیں مچایا گیا، آج کہتے ہیں جلوس نکالیں گے تب کیوں نہیں نکالا، نجکاری قومی مسئلہ ہے، میاں نواز شریف اور زرداری نے مل کر تھر میں افتتاح کیا، یہ اچھی سپرٹ ہے، ماضی کی غلطیوں کی بنیاد پر اڑے نہیں رہنا، تھر میں دونوں رہنماؤں نے مل کر افتتاح کیا تو دنیا کو اچھا یپغام گیا، یہ مثبت جذبہ ایوان بالا میں بھی ہونا چاہے، مزدوروں اور عوام کو گمراہ نہ کیا جائے، مجھے معلوم ہے کس دور میں اداروں کی لوٹ مار کی بجائے مزدوروں کو بلاک کیا گیا، 2008ء میں سٹیل ملز کیا منافع میں نہیں تھی، کارکنوں کو تنخواہ مل رہی تھی جب پیپلزپارٹی گئی تو ملز خسارے میں تھی اس کا ذمہ دار کون ہے، ملک آج کھوکھلا ہو چکا ہے، کچھ تباہی مشرف نے پھیلائی، اس کا 2008ء میں احتساب کرنا چاہیے تھا، شوکت عزیز، مشرف کے اثاثوں کا حساب لیا گیا، نہیں ہم نے مشرف پر آرٹیکل 6 لگا کر دکھایا کہ نہیں، کیا میں اس کی جرات تھی جو پچھلے پانچ سال خاموش رہے، آج ان کے دل میں مزدوروں کا درد اٹھ رہا ہے، اگر یہ درد پہلے اٹھتا تو ہم ساتھ دیتے، پی آئی اے دنیا کی بہترین ایئر لائن تھی جسے جاگیر سمجھ کر لوٹ مار کی گئی، تب کسی کو درد نہ ہوا، ایک ایم ڈی ایسا لگایا جس کے خلاف پیپلزپارٹی کی یونین کو میدان میں نکلنا پڑا، ان کے دل میں درد وقت پر نہیں اٹھتا، اب پوائنٹ سکورنگ نہ کریں، ہم پیپلزپارٹی کے دور کے گند کو صاف کرنا چاہتے ہیں، لوٹ مار کا لفظ تو پیپلزپارٹی کی زبان پر آنا ہی نہیں چاہیے جس نے ہر طرف تباہی و بربادی پھیلائی، مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف پی آئی اے کے جہازوں کو عزت سے اڑتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، سٹیل ملز کی ترقی چاہتے ہیں، اس کام میں ہاتھ ہٹانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر خرم دستگیر سابق حکومت کی وارداتیں ٹھیک کرنے کے لئے محنت کر رہے ہیں، جو کہتے ہیں تو لوٹ مار ہو رہی ہے وہ بتائیں کہ سابق حکومت نے چھوڑا ہی کیا ہے، جو لوٹا جائے، ہم مزدوروں کو جیلوں میں نہیں ڈالیں گے، یونینز پر پابندی نہیں لگائی گے، حاجی عدیل، رضاربانی، شاہی سید جیسے لوگوں کو سب پتہ تھا کہ کیا ہو رہا ہے لیکن یہ خاموش رہے، جو وارداتیں سابق دور میں ڈالی گئی ہیں اس پر اللہ انہیں پکڑے گا، ہم اداروں کو ٹھیک کریں گے اور پاکستان کو دنیا میں باوقار ملک بنائیں گے، ہم نے چھ ماہ میں ڈرون حملے روک دیئے، وزیر خزانہ اسحق ڈار جو کام کر رہے ہیں، یہ سابق حکومت بھی کر سکتی تھی، ہم پاکستان کو خوشحال ملک بنائیں گے، لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر مہنگائی کم کریں گے اور پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنائیں گے۔

قبل ازیں بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ اگر ہم داروں کو درست کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، نجکاری کرتے وقت کارکنوں کے مفاد کو مدنظر رکھا جائے۔حکومت اداروں کو اونے پونے داموں فروخت کر رہی ہے ۔ سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ ریاست کے اداروں سے ڈیڑھ ارب روپے یومیہ کا نقصان ہو رہا ہے، 500 ارب سالانہ دینے سے بہتر یہ کہ ان اداروں کی نجکاری کر دی جائے، او جی ڈی سی ایل، پاکستان پٹرولیم، پاکستان سٹیٹ آئل جیسے ادارے نفع بخش ادارے ہیں، اداروں کا مناسب طور پر تخمینہ لگا کر انہیں پرائیویٹائز کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔