”کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے“ غداری کیس، پرویز مشرف خصوصی عدالت میں پیش ہوگئے ، عدالتی دائرہ اختیار بارے دائر درخواستوں پر فیصلہ آنے تک ملزم پر فرد جرم موخر، عدالتی دائرہ اختیار بارے درخواست سمیت دیگر درخواستوں پر فیصلہ جمعہ کو سنایا جائے گا ، عدالت نے پرویز مشرف کو جمعہ تک عدالت میں پیشی سے استثنیٰ بھی دے دیا

بدھ 19 فروری 2014 03:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19فروری۔2014ء)سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت میں پیش ہوگئے ، تاہم عدالت نے وکلاء صفائی کی جانب سے عدالتی دائرہ اختیار بارے دائر درخواستوں پر فیصلہ آنے تک ملزم پر فرد جرم موخر کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت آج بدھ تک ملتوی کردی ہے جبکہ عدالتی دائرہ اختیار بارے درخواست سمیت دیگر درخواستوں پر فیصلہ جمعہ کو سنایا جائے گا ، عدالت نے اپنے مختصر حکم نامے میں کہا ہے کہ عدالت جمعہ کے روز دائرہ اختیار بارے درخواستوں پر فیصلہ کرنے کے بعد پرویز مشرف کی پیشی بارے سمن جاری کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی ، عدالت نے پرویز مشرف کو جمعہ تک عدالت میں پیشی سے استثنیٰ بھی دے دیا ہے ۔

منگل کے روز غداری مقدمہ کی سماعت کرنے والی تین رکنی خصوصی عدالت نے مقدمہ کی سماعت شروع کی تو اس موقع پر عدالتی سربراہ جسٹس فیصل عرب نے وکیل صفائی انور منصور سے استفار کیا کہ آپ کے موکل نے آج پیش ہونا تھا کیا وہ پیش ہورہے ہیں جس پر انور منصور نے کہا کہ وہ آج عدالت میں کسی بھی وقت پیش ہوجائینگے تاہم کچھ سکیورٹی معاملات کے باعث وقت کا تعین نہیں ہوسکا کہ وہ کس وقت عدالت میں پیش ہونگے ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر انور منصور نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے ساتھی وکیل خالد رانجھا کی عدم موجودگی میں انہیں غداری مقدمہ کا ٹرائل خصوصی عدالت سے فوجی عدالت منتقل کرنے کی درخواست پر دلائل دینے کی اجازت دی جائے جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آپ مذکورہ درخواست پر دلائل دے سکتے ہیں جس پر انور منصور نے مذکورہ درخواست پر جواب الجواب دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ خصوصی عدالت سویلین کیخلاف غداری مقدمہ کی سماعت تو کرسکتی ہے تاہم کسی ایسے ملزم کا ٹرائل نہیں کیا جاسکتا جس پر لگنے والا الزام اس وقت کا ہو جب وہ ملزم یونیفارم میں تھا ۔

مسلح افواج اپنے طے کردہ قوانین کے تحت ہی کام کرتی ہیں اور ان قوانین کی خلاف ورزی پر ان کیخلاف فوجی عدالت میں مقدمات کی سماعت ہوتی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 6 آرٹیکل 245 سے مختلف ہے اس لئے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا ٹرائل صرف فوجی عدالت میں ہی ہوسکتا ہے جس پر جسٹس فیصل عرب نے انور منصور سے استفسار کیا کہ اگر سویلین صدر بھی سنگین غداری کا مرتکب ہو تو کیا اس کا ٹرائل بھی فوجی عدالت میں ہوگا اس پر انور منصور نے کہا کہ وہ صرف اپنے موکل بارے دلائل دے رہے ہیں جو سویلین صدر نہیں بلکہ آرمی چیف کی حیثیت میں ان کے اٹھائے گئے اقدامات پر ان کیخلاف یہ غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے بعد ازاں فوجی عدالت میں مقدمہ کا ٹرائل منتقل کرنے کی درخواست پر انور منصور کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے ۔

اس کے بعد وکیل صفائی انور منصور نے خصوصی عدالت کی تشکیل اور ججز کے تعصب بارے درخواست پر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اگر کسی ملزم کو عدالت سے انصاف کی توقع نہ ہو یا ججز بارے اس کے اعتراضات ہوں تو ایسی صورت میں مقدمہ کی سماعت نہیں ہوسکتی ۔ انہوں نے ججز تعصب بارے سپریم کورٹ آف پاکستان ، سپریم کورٹ آف انڈیا اور دنیا کے مختلف عدالتوں کے سات فیصلوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ انہوں نے عدالت کے سامنے جو فیصلے پڑھے ہیں ان میں ہر فیصلے میں مقدمہ کی نوعیت اور وجوہات مختلف ہیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ ججز نظر بندی اور وکلاء تحریک کے بعد بحال ہونے والے ججز بارے عام رائے یہ ہے کہ وہ پرویز مشرف سے متعلق کیس کی سما عت میرٹ پر نہیں کرینگے اس لئے درخواست گزار کے ججز تعصب بارے اعتراضات کو سنجیدگی سے لیا جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 4میں بنیادی حدود کا صرف ذکر ہے جبکہ آرٹیکل 10Aکسی بھی شہری کو بنیادی حقوق کا تحفظ فراہم کرتا ہے اس لئے ملزم پرویز مشرف کا ٹرائل آرٹیکل 10Aکے مطابق فیئر ٹرائل کے مطابق کیاجانا ضروری ہے تاکہ ملزم کے بنیادی انسانی حقوق محفوظ رہیں ۔

اس موقع پر انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ انہیں اطلاع ملی ہے کہ ان کے موکل پرویز مشرف کا قافلہ تیار ہے اور وہ عدالت آنا چاہتے ہیں تاہم ایس پی انہیں کنے کیلئے تیار نہیں جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ پرویز مشرف کی سکیورٹی کیلئے 11سو جوان روٹس پر لگائے گئے ہیں ملزم پیش ہونے میں سنجیدہ نہیں وہ کسی کی تحویل میں نہیں بلکہ آزاد آدمی ہے ۔ اس پر انور منصور نے عدالت سے استدعا کی کہ کسی ذریعے سے وفاقی پولیس کو ہدایت جاری کی جائے کہ وہ قافلے کو اپنی تحویل میں لیں جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکرٹری مبارک عدالت میں موجود ہیں لہذا عدالت انہیں ہدایت دے سکتی ہے جس پر عدالت نے جوائنٹ سیکرٹری وزارت داخلہ کو حکم دیا کہ پرویز مشرف کے قافلے کو تحویل میں لینے کے انتظامات کئے جائیں اس کے بعد انور منصور نے مذکورہ درخواست پر دلائل دوبارہ شروع کئے ہی تھے کہ کچھ دیر بعد اکرم شیخ نے عدالت کو بتایا کہ اے ایف آئی سی کے کمانڈنٹ ملزم پرویز مشرف کو پولیس لژ تحویل میں دینے کیلئے تیار نہیں حالانکہ وہاں پنجاب پولیس ، وزارت داخلہ اور وفاقی پولیس کی ہائی کمان موجود ہے لہذا کمانڈنٹ ایف آئی سی کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ قافلے کی کمان پولیس کے حوالے کریں ۔

جس پر فیصل عرب نے رجسٹرار خصوصی عدالت کو حکم دیا کہ وہ وزارت داخلہ کے حکام کے ذریعے کمانڈٹ اے ایف آئی سی سے بات کریں کہ قافلے کی کمان پولیس کے حوالے کی جائے۔ اس موقع پر وکیل صفائی احمد رضا قصوری نے عدالت سے استدعا کی کہ پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوجائینگے مگر عدالت نے ابھی تک دائرہ اختیار بارے ملزم کی جانب سے دائر درخواست پر فیصلہ نہیں کیا لہذا میری عدالت سے استدعا ہے کہ غداری مقدمہ کی سماعت بارے خصوصی عدالت کے دائرہ اختیار سے متعلق پہلے فیصلہ کیاجائے اور اس کے بعد باقی سماعت کی جائے جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے کہا کہ وکیل صفائی کا موقف درست ہے عدالت درخواست نمبر 06/2013 پر پہلے فیصلہ دے گی تاکہ عدالتی دائرہ اختیار بارے فیصلہ سامنے آسکے جس کے بعد عدالت نے آدھے گھنٹے کیلئے مقدمے کی سماعت ملتوی کردی ۔

بعد ازاں ایک بجے کے بعد دوران وقفہ پرویز مشرف عدالت میں اپنے ضامن راشد قریشی کے ہمراہ کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور کچھ دیر بعد خصوصی عدالت کے جج صاحبان کے آنے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم کے ساتھ پرویز مشرف عدالت میں موجود ہیں جس پر جسٹس فیصل عرب نے پرویز مشرف سے کہا کہ وہ اپنی سیٹ پر کھڑے ہوں اس پر پرویز مشرف نے کرسی سے اٹھ کر جج صاحبان کو سلوٹ کیا بعد ازاں عدالت نے انہیں بیٹھنے کی ہدایت کی ۔

اس موقع پر انور منصور نے کہا کہ عدالتی دائرہ اختیار بارے درخواست پر فیصلہ ہونے پر پرویز مشرف پر فرد جرم عائد نہ کی جائے اور گزشتہ سماعت پر بھی عدالت نے کہا تھا کہ اگر پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوکر استدعا کریں تو زیر سماعت درخواستوں پر فیصلہ آنے تک ان پر فرد جرم عائد نہیں کی جائے گی اور عدالت میں پیشی سے بھی استثنیٰ دیا جائے گا جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ قانون کے مطابق ملزم کی پیش ہونے کی صورت میں پہلی تاریخ پر ان پر فرد جرم عائد ہوتی ہے یا چارج پڑھ کر سنایا جاتا ہے باقی اعتراضات کے دور ہونے تک چارج فریم نہیں کیا جاتا جس پر احمد رضا قصوری نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کا موکل عدالت میں پیش ہوگیا ہے دائرہ اختیار سے متعلق فیصلہ سے قبل چارج فریم نہ کیا جائے ۔

اس موقع پر اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے چارج فریم نہ کرنے کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ قانون کا تقاضا ہے کہ قانون کا تقاضا خصوصی عدالت کا حکم نامہ اور سیکشن ٰکا سب سیکشن 2 اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ملزم پر فوری طور پر فرد جرم عائد کی جائے یا کم از کم چارج شیٹ پڑھ کر سنائی جائے پرویز مشرف ملزم ہونے کے ساتھ ساتھ اہم شخصیت ہے جس کو عدالت میں آنے میں تقریباً دو ماہ سے زائد کا عرصہ لگا ہے ۔

انہوں نے عدالت کے چوبیس دسمبر اور یکم جنوری کے فیصلے بھی پڑھ کر سنائے اور وکلاء صفائی کی استدعا کی مخالفت کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ ملزم پر فوری طور پر فرد جرم عائد کی جائے بعد ازاں عدالت نے فریقین کے وکلاء کو سننے کے بعد حکم جاری کیا ۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوگئے ہیں تاہم وکلاء صفائی اور ملزم کی جانب سے خصوصی عدالت کے دائرہ اختیار سے متعلق درخواست اور اعتراضات پر فیصلہ آنے تک ملزم پرفرد جرم عائد نہیں کی جاتی ۔

عدالت نے زیر سماعت درخواستوں پر وکلا صفائی کو دلائل مکمل کرنے کی بھی ہدایت کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ان درخواستوں پر جمعہ تک فیصلہ کیاجائے گا جبکہ ملزم پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کرنے کیلئے ان کو دوبارہ سمن کرنے یا نہ کرنے سے متعلق فیصلہ بھی جمعہ کے روز دائرہ اختیار کی درخواست پر فیصلے کے بعد کیا جائے گا لہذا عدالت پرویز مشرف کو جمعہ تک عدالت میں پیشی سے استثنیٰ دیتی ہے جبکہ عدالت کی تشکیل اور ججز کے تعصب بارے درخواست پر وکیل صفائی انور منصور آج (بدھ کو )بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے ۔بعد ازاں عدالت نے پرویز مشرف پر فرد جرم موخر کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت ملتوی کردی ہے ۔