سپریم کورٹ نے حکومت پنجاب کی لاپتہ شوہر مسعود جنجوعہ کو القاعدہ اور امریکہ کا ڈبل ایجنٹ ہونے پر مار دئیے جانے اور مقدمہ نمٹانے کی استدعاء مسترد کردی، آئی ایس آئی کو مسعود جنجوعہ اور فیصل فراز بارے ایک ایک چیز کی معلومات حاصل ہیں تو وہ یہ کیوں نہیں جانتی کہ مسعود جنجوعہ کی لاش کہاں ہے؟ عدالت کا استفسار، ڈی این اے ٹیسٹ کرواکر یہ لاش ان کی بیوی کے حوالے کی جائے‘حکم،تین فوجی افسروں کے بیانات حلفی 48 گھنٹوں میں طلب، عدالت نے مشرف کی کتاب ”آن دی لائن آف فائر“ کا پہلا ایڈیشن بھی طلب کر لیا،حساس اداروں کو بتانا ہوگا کہ مسعود جنجوعہ کو کس نے کب اور کہاں قتل کیا اور اب اس کی لاش کہاں ہے؟پنجاب حکومت اگر سمجھتی ہے کہ آئی ایس آئی اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے تو عدالت کو بتادے،جسٹس جواد ایس خواجہ، مسعود جنجوعہ 2005ء میں مارے گئے تھے‘ وہ امریکہ اور القاعدہ کے ڈبل ایجنٹ تھے‘ القاعدہ نے مار دیا تھا،ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا موقف

بدھ 19 فروری 2014 03:23

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19فروری۔2014ء) سپریم کورٹ نے حکومت پنجاب کی جانب سے آمنہ مسعود جنجوعہ کے لاپتہ شوہر مسعود جنجوعہ کو القاعدہ اور امریکہ کا ڈبل ایجنٹ ہونے پر مار دئیے جانے اور مقدمہ نمٹانے کی استدعاء سختی کیساتھ مسترد کردی اور کہا کہ اگر آئی ایس آئی کو مسعود جنجوعہ اور فیصل فراز بارے ایک ایک چیز کی معلومات حاصل ہیں تو وہ یہ کیوں نہیں جانتی کہ مسعود جنجوعہ کی لاش کہاں ہے؟ اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرواکر یہ لاش ان کی بیوی کے حوالے کی جائے‘ عدالت نے حساس اداروں کے سابق اعلی افسران کرنل (ر) حبیب اللہ‘ لیفٹیننٹ جنرل (ر) شفقات احمد اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) ندیم تاج سے بھی 48 گھنٹوں میں بیانات حلفی طلب کئے ہیں علاوہ ازیں عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کی کتاب ”آن دی لائن آف فائر“ کا پہلا ایڈیشن بھی طلب کیا ہے کہ جس میں سابق آرمی چیف نے یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو امریکہ کے حوالے بھی کیا گیا ہے‘ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ حساس اداروں کو بتانا ہوگا کہ مسعود جنجوعہ کو کس نے کب اور کہاں قتل کیا اور اب اس کی لاش کہاں ہے؟ حساس ادارے کے سابق سربراہ نصرت نعیم کا بیان حلفی کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے کہ اسے من وعن تسلیم کرلیا جائے‘ پنجاب حکومت اگر سمجھتی ہے کہ آئی ایس آئی اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے تو عدالت کو بتادے جبکہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل رزاق اے مرزا نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ مسعود جنجوعہ 2005ء میں مارے گئے تھے‘ وہ امریکہ اور القاعدہ کے ڈبل ایجنٹ تھے‘ وہ ہمارے حساس اداروں کو بھی مطلوب تھے‘ القاعدہ نے ڈبل ایجنٹ ہونے کی وجہ سے مسعود جنجوعہ کو مار دیا تھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے یہ دلائل جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کے روبرو دئیے۔ ڈی پی او ہارون جوئیہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عمران منیر کا بیان حاصل کرنے کیلئے وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشن برائے پناہ گزین ( یو این ایچ سی آر) کو خط لکھ دیا ہے اس حوالے سے تاحال جواب موصول نہیں ہوا اس پر عدالت نے کہا کہ یہ سب کچھ تو آپ پہلے بھی بتاسکتے تھے۔

عدالت نے رزاق مرزا نے کہا کہا کہ جس طرح سے پولیس کام کررہی ہے اس طرح سے تو تفتیش کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اس دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر بھی پیش ہوئے تو جسٹس جواد نے کہا کہ ہمارے لئے ایک ہی مسئلہ ہے کہ ہر بار کہہ کہہ کر تھک گئے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔ رزاق نے بتایا کہ میں کچھ حقائق بتانا چاہتا ہوں۔ کمیشن نے کیس بند کردیا ہے۔

بریگیڈیئر (ر) نے حلف پر بیان کمیشن کو دیا تھا۔ ڈاکٹر عمران منیر کے دو بیانات موجود ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم کمیشن کے پاس کیس کو دوبارہ کھول دیتے ہیں۔ رزاق نے کہا کہ حساس ادارے کہتے ہیں کہ مسعود جنجوعہ اب زندہ نہیں ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگر یہ بندہ اس دنیا میں ہے یا نہیں تو آپ کو بتانا پڑے گا کہ یہ کہاں ہیں؟۔ رزاق نے کہا کہ 2005ء کا معاملہ ہے اگر کسی ایجنسی کی تحویل میں ہوتا تو اب تک پتہ چل چکا ہوتا۔

جسٹس جواد نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ نے سابق صدر پرویز مشرف کی ”آن دی لائن آف فائر“ نامی کتاب میں دئیے گئے اقتباسات کے تحت کوئی تحقیقات کی ہیں جس میں پیسے لے کر لوگ امریکہ کے حوالے کئے گئے تھے۔ دوسری اشاعت میں یہ سب چیزیں نکال دی گئی تھیں۔ آٹھ سال سے آمنہ آرہی ہیں ان کو کیا جواب دیں۔ طارق کھوکھر نے کہا کہ میں نے متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا ہے۔

ڈاکٹر منیر نے ڈائری میں بہت کچھ لکھا ہوا ہے۔ رزاق مرزا کا بیان بھی حاصل کیا جاسکتا تھا اور اس کے مطابق کارروائی کی جاتی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ یہ وفاق اور صوبے کے شہری ہیں بہت سی سیدھی چیزیں ہیں ان کی تحقیقات کی جانی چاہئیں۔ رزاق اے مرزا نے کہا کہ یہ بندہ ڈبل ایجنٹ تھا جس کی وجہ سے القاعدہ نے اسے ماردیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اگر یہ بندہ ڈبل ایجنٹ تھا تو اس بارے میں تو حساس اداروں کے پاس زیادہ معلومات ہونی چاہئیں تھیں۔

رزاق مرزا نے کہا کہ بیان پڑھ لیں مسعود جنجوعہ امریکہ اور القاعدہ کے درمیان ڈبل ایجنٹ تھا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ جس بریگیڈیئر کی آپ بات کررہے ہیں اسے طلب کرکے اس پر جرح کرلیتے ہیں۔ ہم آپ کے جواب کا مکمل طور پر جائزہ لے کر ہی فیصلہ کریں گے۔ پنجاب حکومت نے دوران سماعت جواب داخل کرایا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ جس کے جتنے سانس ہیں اس سے زیادہ اس نے نہیں لینے۔

رزاق مرزا نے کہا کہ یہ خود گیا‘ دو سیٹیں بک کرائی ہیں اور رضاکارانہ طور پر گیا ہے۔ اس کی مکمل تحقیقات ہوئی ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اس کی مکمل تحقیقات نہیں ہوئی ہیں۔ اگر یہ مرچکے ہیں تو قبر دکھادیں‘ اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرالیتے ہیں۔ رزاق مرزا نے کہا کہ نصرت نعیم سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے کمیشن کے پاس اپنا جواب داخل کرایا تھا جس میں انہوں نے بتایا کہ حساس اداروں کی ہٹ لسٹ پر تھے۔

اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ یہ تو ٹھوس شہادت ہے کہ یہ ہماری ایجنسیوں کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ اس کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ پنجاب کے لاء آفیسر نے بیان پڑھتے ہوئے مزید کہا کہ طارق نامی امریکی ایجنٹ کیساتھ ان کے تعلقات تھے جس نے مسعود جنجوعہ اور فیصل فراز کے ذریعے لیپ ٹاپ میں چپس انسٹال کرکے القاعدہ کو بھجوائے تھے جس پر انہیں مار دیا گیا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اتنا کچھ آپ کو پتہ ہے تو اس کی لاش کہاں ہے؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حساس ادارہ آپ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔

آپ کی ہر بات صحیفہ نہیں ہے کہ جسے تسلیم کرلیا جائے۔ جنرل صاحب کو ویگن تک کا پتہ ہے مگر یہ پتہ نہیں کہ اسے کہاں دفنایا گیا ہے۔ اسے ہم جمعرات کو لگارہے ہیں باقی بیانات حلفی جمع کروادئیے گئے ہیں یا نہیں۔ طارق کھوکھر نے بتایا کہ وزارت دفاع نے ایک اضافی درخواست دائر کی ہے اس کا جائزہ لے لیں۔ درخواست پیر کو دائر کی گئی تھی۔ عدالت نے کہا کہ بریگیڈیئر (ر) نصرت کے 161 کے بیانات دکھائیں وہاں انہوں نے کیا کہا ہے اس پر پولیس نے ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔

ڈی پی او ہارون جوئیہ سے پوچھا کہ بیانات کہاں ہیں جلدی کریں عدالت کا وقت فالتو نہیں ہے۔ رزاق مرزا نے بتایا کہ ہم نے جو جواب داخل کیا ہے اس میں نصرت نعیم کا مکمل بیان جرح کیساتھ موجود ہے اسے دیکھ لیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کا پتہ ہے لیکن یہ نہیں پتہ کہ مسعودہ جنجوعہ کی لاش کہاں ہے؟ اس رپورٹ سے کچھ نہیں بنے گا بیان میں کیا کہا گیا ہے۔

مسعود جنجوعہ نے پاکستان اور افغانستان میں انسانوں کو ذبح کرنے کا نظام متعارف کروایا ہے۔ بعدازاں عدالت نے آرڈر لکھواتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب نے جواب داخل کیا ہے جس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ لاء افسر کے مطابق اس جواب میں متعلقہ معلومات موجود ہیں۔ عدالت نے لاء افسر سے پوچھا کہ وہ سابق جنرل نصرت نعیم کا بیان داخل کریں تو انہوں نے بتایا کہ 161 کا بیان جواب کا حصہ ہے۔

رپورٹ سے یہ چیز عیاں ہے کہ مسعود جنجوعہ بارے ہر ایک چھوٹی سے چھوٹی چیز تو موجود ہے مگر جس وقت ان کو غائب کیا گیا اس بارے میں کچھ معلومات نہیں ہیں بس اتنا کہہ دیا گیا ہے کہ اس کو مار دیا گیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے بھی وزارت دفاع کی جانب سے جواب داخل کرایا ہے جو ایک اضافی درخواست کی شکل میں ہے۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا ہے کہ پرویز مشرف کی کتاب کے پہلے ایڈیشن میں کچھ پاکستانی شہریوں کو امریکہ کے حوالے کرنے بارے جو کچھ کہا ہے وہ عدالت میں پیش کیا جائے اور اس کی روشنی میں جواب دیا جائے باقی بیانات حلفی جمع نہیں کروائے گئے ہیں‘ تین بیانات حلفی رہ گئے ہیں ان میں کرنل (ر) حبیب اللہ‘ لیفٹیننٹ جنرل (ر) شفقات احمد اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) ندیم تاج شامل ہیں باقی سب کے بیانات داخل کرادئیے گئے ہیں۔

طارق کھوکھر نے بتایا کہ پچھلی سات سماعتوں پر غلطی سے پانچ بندوں کا نام آرڈر میں لکھوادیا گیا تھا جس کی درستگی کی جائے۔ اگلی سماعت پر مذکورہ بالا افراد کے بیانات بھی جمع کروائے جائیں۔ بعدازاں عدالت نے سماعت 20 فروری تک سماعت ملتوی کردی۔