35لاپتہ افراد کیس ،خود کو آئین و قانون سے بالاتر سمجھنے والے خوش فہمی کا شکار، سپریم کورٹ ،لاپتہ افراد کے معاملے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اس کا جائزہ لینگے، حکومت شہریوں کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے ،جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریمارکس ، وفاقی حکومت،صوبائی حکومتوں کو ذمہ دار افراد کیخلاف مقدمہ درج کرکے ایف آئی آر کی کاپی آج جمع کرانے کا حکم

جمعرات 20 مارچ 2014 06:36

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔20مارچ۔2014ء) سپریم کورٹ نے مالاکنڈ سے اٹھائے گئے 35لاپتہ افراد کے مقدمے میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت سے ذمہ دار افراد کیخلاف مقدمہ درج کرکے ایف آئی آر کی کاپی آج جمعرات کو بارہ بجے دن تک عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے جبکہ اٹارنی جنرل پاکستان نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ دس دسمبر 2013ء کے عدالتی حکم کے مطابق 35 جبری گم شدگی میں مبینہ طور پر ملوث فوجی افسران کیخلاف چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر وفاق کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جارہا ہے ۔

جمعرات کو اس کی کاپی پیش کردینگے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ خود کو آئین و قانون سے بالاتر سمجھنے والے شدید قسم کی خوش فہمی کا شکار ہیں اب اس ملک میں صرف آئین و قانون ہی چلے گا جو قانون آئین سے متصادم ہوگا اس کو کالعدم قرار دینگے ۔

(جاری ہے)

بارہا کہا ہے کہ ملک میں آئین و قانون ہی کی عملداری ہوگی ،لاپتہ افراد کے معاملے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اس کا جائزہ لینگے، حکومت شہریوں کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے ۔

انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے ہیں جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی اس دوران اٹارنی جنرل ، ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے اور دوسرے حکام پیش ہوئے ۔ سماعت کے دوران عدالت نے وفاق کا جواب مسترد کیا تھا ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہمارا حکم دس دسمبر 2012ء کا ہے اب تک اس پر عمل نہیں ہوا ہم نے چیف ایگزیکٹو پاکستان ، چیف ایگزیکٹو کے پی کے اور گورنر سے جواب مانگ رہے ہیں وہ وضاحت دے دیں ۔

اے جی نے کہا کہ کے پی کے نے رپورٹ دے دی ہے کمیشن بھی بنایا جاچکا ہے اس میں تاخیر ہوچکی ہے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ چوبیس جنوری کو کمیشن بنا ہے انیس مارچ آگیا ایک انچ ملی میٹر بات آگے نہیں چلی ہم آپ کا ساتھ دے دیتے اگر آپ غلط ہیں تو ذمہ داری قبول کریں ۔محبت شاہ کو آگے بلایا اور کہا کہ ہم تو آرڈر پاس کرنا ہے ہم نے ہی غفلت کا مظاہرہ کیا یہ حکم ہمیں بہت پہلے دے دینا چاہیے تھا ان کو بتا دیں کہ یاسین شاہ مر گیا ہے یا کہاں ہے ؟ گورنر کے پی کے بھی اس معاملے کے ذمہ دار ہیں 247(7) کے تحت گورنر قانون میں توسیع کرتے ہیں باقی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے اٹارنی جنرل نے کہا کہ مناسب وقت دیں ہم پیش رفت کرنے کو تیار ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ اس طرح کی ہم پہلے ہی ایکسرسائز کرچکے ہیں وفاق کی یقین دہانی پر ہم نے وقت دیا تھا ہم آرڈر جاری کررہے ہیں وہ جواب دے دیں جس میں وہ کمیشن کا بتائیں یا پھر یہ بتائں ی کہ ادارے آئین و قانون سے ماورا ہیں اور کتنا آپ کا انتظار کریں آپ ریاست ہیں سپریم کورٹ قانون کے مطابق بنیادی حقوق نافذ کرنے کے لیے ریاست کے طورپر کام نہیں کرسکتی ہم نے آپ کے ذریعے احکامات پر عمل کرانا ہے ۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ مختصر سا وقت دے دیں اگر اگلی بار بھی عمل نہ ہوا تو حکم جاری کردینگے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اب وقت نہیں دے سکتے پہلے آپ کی طرح ہمیں بھی یہ گمان تھا کہ ہمارے حکم پر عمل ہوجائے گا ۔ اے جی نے کہا کہ کمیشن کو کام کرنے دیں ملزمان کی شناخت ہوجائے گی تو کارروائی کردینگے ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اعتماد کیا ہوتا ہے کہ یہ کام ہوجائے گا جب ایک بار کریڈیبلٹی مجروع ہوجائے تو پھر معاملات خراب ہوجاتے ہیں او ایسا لگاتار ہورہا ہے تو مسئلہ گھمبیر ہوجاتا ہے سماعت کے آخر پر اس کا تفصیلی حکم جاری کرینگے اور یہ کام ہم کب سے کررہے ہیں ہم تو آپ سے جاب بھی مانگ سکتے ہیں آپ کہہ دیئے گا کہ اپنے شہریوں کا تحفظ اب ہمارا کوئی ذمہ نہیں ہے آخری مقدمہ کے طور پر اس کی سماعت میں حکم جاری کرینگے ۔

اے جی نے بتایا کہ ایف آئی آر درج کی جائے اس کی کاپی ابھی نہیں دے سکتے ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ اس ملک میں آئین و قانون ہی چلے گا اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ آئین سے ماورا ہے تو خوش فہمی میں مبتلا ہے یہ عدالت محبت شاہ سمیت سب کے حقوق کی امین ہے ڈاکٹر عابدہ ملک کیس میں بھی سب کچھ الگ ہی دکھایا گیا جو قانون آئین سے متصادم ہوگا وہ باقی نہیں رہے گا اس کو جمعرات بارہ بجے تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے ایف آئی آر کی کاپی طلب کی ہے ۔

اس سے قبل لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج ہی فیصلہ اور آج ہی وزیر اعظم کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے۔واضح رہے کہ صبح کو سماعت شروع ہوئی تھی تواس وقت عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاق یقین دہانیاں کراتا رہا، اس لیے نوٹس جاری نہیں کیا تھا۔ اب ہم نوٹس جاری کریں گے ، عدالت نے اٹارنی جنرل سلمان بٹ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا آپ لکھ کر دے دیں کہ بنیادی حقوق کا تحفظ وزیر اعظم کی ذمہ داری نہیں۔

عدالت نے دس دسمبر کو حکم دیا اس کے بعد تین مرتبہ وہی آرڈر دیا۔ عدالت نے کہا ہم غافل رہے ہیں پہلے ہی حکم جاری کر دینا چاہئے تھا۔ عدالت کا کہنا تھا آرٹیکل 190 کے تحت تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات پرعملدرآمد کے پابند ہیں۔ آئین کے آرٹیکل سات کے تحت بنیادی حقوق کی ذمہ دار ریاست ہے۔ اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے کہا لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کمیشن بنا دیا گیا ہے جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے جنوری میں کمیشن بنا دو ماہ بعد ایک سینٹی میٹر بھی پیشرفت نہیں ہوئی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی حکم پر علمدرآمد کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں،لاپتہ افراد کو پیش کرنے کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کی ہے، وفاق نے اس سلسلے میں ایڈیشنل سیکریٹری دفاع کو وضاحت کے لئے بھیجا ہے، جواب میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آج 35 ویں سماعت ہے مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، آئین میں موجود بنیادی حقوق سے متعلق قانون کی اہمیت ہے یا نہیں۔

اگر آپ میں ہمت ہے تو کمرہ عدالت میں موجود لاپتہ افراد کے ورثا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں ، وزیراعظم بے شک یہ بیان دے دیں کہ وہ اس معاملے سے بری الذمہ ہیں،قانون سب کے لئے برابر ہے، ہمیں کسی کی وضاحت نہیں سننی۔تاہم بعدازاں اٹارنی جنرل پاکستان نے نئی پیش رفت سے عدالت کو آگاہ کیاعدالت نے سماعت آج جمعرات بارہ بجے تک ملتوی کردی۔