لاپتہ شخص کیس، ڈی جی آئی ایس آئی کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور ،لاپتہ شہری عارف با رے آئی ایس آئی کی طرف سے سربمہر رپورٹ عدالت میں پیش ، مذکورہ شہری خفیہ ادارے کی تحویل میں نہیں معاملے کو لاپتہ افراد کے لئے قائم کمیشن میں اٹھایا جائے‘ خفیہ ادارے کا بیان حلفی، عدالتوں کا مذاق نہ اڑایا جائے ، ڈی جی آئی ایس آئی کو بلا کر خوشی نہیں ہوتی ‘ عدا لتی ریما رکس

جمعرات 3 اپریل 2014 05:55

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔3اپریل۔2014ء) لاپتہ شہری کیس،عدالتی حکم پر آئی ایس آئی کے سینئر افسر نے ڈائریکٹر جنرل( ڈی جی) آئی ایس آئی کی طرف سے سربمہر رپورٹ عدالت میں جمع کر وا دی ہے جس پر عدالت نے راولپنڈی سے لاپتہ ہونے والی شہری عارف کا معاملہ نمٹا دیا ہے۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ معاملہ تفتیش طلب ہے جس کے لئے شواہد درکار ہیں،ڈی جی آئی ایس آئی طرف سے بیان حلفی عدالت کو موصول ہو چکا ہے کہ مذکورہ شہری ان کی تحویل میں نہیں لہذا معاملے کو لاپتہ افراد کے لئے قائم کمیشن میں اٹھایا جائے۔

عدالت نے ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے 28مارچ کو ان کی طلبی کے لئے جاری کیے گئے نوٹس بھی واپس لے لئے ہیں۔بدھ کے روز راولپنڈی سے لاپتہ ہونے والے شہری عارف کے کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ریاض احمد خان پر مشتمل سنگل بنچ نے کی۔

(جاری ہے)

اس موقع درخواست گزارہ پروین بی بی اپنے وکیل کے ہمراہ پیش ہوئیں جبکہ ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے کرنل فیاض اور وفاقی کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت شروع ہونے پر آئی ایس آئی کی طرف سے کرنل فیاض نے مذکورہ شہری کے حوالے سے سربمہر رپورٹ ،بیان حلفی اور حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی رپورٹ کے ساتھ عدالت میں پیش کی۔ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے بیان حلفی دیا گیا کہ مذکورہ لاپتہ شہری آئی ایس آئی کی تحویل میں نہیں ہے اور یہ محض ایک الزام ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں۔اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے بیان حلفی موصول ہو چکا ہے جس میں کہا گیا کہ عارف نامی شہری ان کی تحویل میں نہیں ہے اور نہ ہی ان کو اس بارے علم ہے اور ڈی جی آئی ایس آئی نے رپورٹ کے ساتھ ایک درخواست بھی دی ہے جس میں عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی استدعا کی گئی ہے ۔

اس پر فاضل جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو طلب کر کے خوشی نہیں ہوتی مگر جب آئی ایس آئی کی طرف سے کوئی عدالت میں پیش بھی نہیں ہوتا اور جواب داخل کروانے کے لئے بھی چھ ہفتوں کی مہلت طلب کی جاتی ہے،کم از کم عدالتی نظام کا مذاق تو نہ اڑایا جائے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت کو عدالت کو مزید بتایا کہ درخواست گزار ہ نے لاپتہ افراد کے کیس کے حوالے سے کمیشن سے رجوع کررکھا ہے اور وہیں پر ان کی شہادتیں اور انکوائری ہوگی، لہذا اس معاملے کو لاپتہ افراد کے لئے قائم کمیشن میں ہی بھجوایا جائے تاکہ اس کے لئے درکار شواہد و انکوائری مکمل کی جاسکے، جس پر عدالت نے ڈی جی آئی ایس آئی کو حاضری سے استثنیٰ دیتے ہوئے 28 فروری کا نوٹس واپس لے لیا ہے جس میں اسلام ہائی کورٹ نے انہیں عدالت میں پیش ہونے کے لئے طلب کیا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے مذکورہ کیس نمٹاتے ہوئے ہدایات جاری کی ہیں کہ معاملہ تفتیش طلب ہے جس کے لئے شواہد درکار ہیں اور پوری انکوائری کی ضرورت ہے،ڈی جی آئی ایس آئی طرف سے بیان حلفی عدالت کو موصول ہو چکا ہے کہ مذکورہ شہری ان کی تحویل میں نہیں لہذا معاملے کو لاپتہ افراد کے لئے قائم کمیشن میں اٹھایا جائے۔واضح رہے 24مارچ 2014کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مذکورہ کیس میں آئی ایس آئی کے وکیل نے جواب داخل کروانے کے لئے عدالت سے چھ ہفتوں کی مہلت طلب کی تھی تاہم عدالت نے ان کی استدعا مسترد کرتے ہوئے 02اپریل کو ڈی جی آئی ایس آئی کو ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونے کے لئے سمن جاری کیے تھے۔