پتہ چلایا جائے کس ایجنسی نے ارکان پارلیمنٹ کے فون ٹیپ کیے؟پارلیمنٹ لاجز کی تحقیق کی جائے تو وہاں سے بھی خفیہ آلات برآمد ہونگے،استحقاق کمیٹی سینٹ،فون اگر قومی مفاد میں ٹیپ کیے جارہے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی ناراض ہیں لیکن وجوہات سے ملک وقوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے،ارکان کی رائے،قومی سلامتی امورپرسرکاری قواعد کے تحت فرائض سر انجام دیتا ہے ،ڈی جی آئی بی،جمہوری حکومت کو کمزور کرنے کی سازشیں بند کی جائیں،سینیٹر عبد الرؤف

جمعرات 3 اپریل 2014 06:00

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔3اپریل۔2014ء ) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قواعد وضوابط و استحقاق نے ہدایت کی ہے کہ پتہ چلایا جائے کس ایجنسی نے فون ٹیپ کیے؟ اور کہا کہ اگر پارلیمنٹ لاجز کے نظام کی تحقیق کی جائے تو وہاں سے بھی خفیہ آلات برآمد ہونگے اور کہا ہے کہ اگر الزام غلط ہے تو وضاحت کی جائے اگر کسی ممبر پارلیمنٹ کے بارے میں شک ہے تو اُسے بھی آگاہ کیا جائے ۔

فون اگر قومی مفاد میں ٹیپ کیے جارہے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی ناراض ہیں لیکن وجوہات سے ملک وقوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے جبکہ سینیٹر حاجی عدیل کی طرف سے ممبران پارلیمنٹ کے فون کو خفیہ طور پر ٹیپ کرنے کی تحریک استحقاق کے حوالے سے اجلاس میں ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس آفتاب سلطان نے بتایا کہ انٹیلی جنس بیورو قومی سلامتی کے امور کے حوالے سے اور ریاست کو محفوظ بنانے کیلئے سرکاری قواعد کے تحت فرائض سر انجام دیتا ہے ،سینیٹر عبد الرؤف نے کہا کہ ادارے اپنی مشکلات سے آگاہ کریں کمیٹی پوری مدد کرے گی ۔

(جاری ہے)

جمہوری حکومت کو کمزور کرنے کی سازشیں بند کی جائیں۔قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کرنل (ر) سینیٹر طاہر حسین مشہدی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں سینیٹرز مشاہد حسین سید ،حاجی محمد عدیل ، چوہدری جعفر اقبال ، عبدالرؤف کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو آفتاب سلطان ، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت دفاع آصف نذیر ،جوائنٹ سیکرٹری وزارت داخلہ سلمان خان وزیر، نے شرکت کی ۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی کرنل (ر) طاہرمشہدی نے کہا کہ انتہائی اہم وقومی نوعیت کے معاملے کے کمیٹی کے اجلاس میں وزیر داخلہ سیکرٹری داخلہ کی عدم شرکت اور تمام ایجنسیوں پر الزام کے معاملہ کے حقائق سے آگاہ کرنے کے لئے آئی ایس آئی اورایم آئی کے سربراہان کی غیر موجودگی پارلیمنٹ کی عزت ،وقاراور بالادستی کو تسلیم نہ کرنے کے مترادف ہے ۔پارلیمانی جمہوریت میں کمیٹی وزیراعظم کوبھی طلب کرسکتی ہے ۔

آرمی ،نیول، اور ائیر فورس کے سربراہ کمیٹیوں کو بریفنگ دے چکے ہیں اور وزارتوں کے ماتحت محکمہ جات کے سربراہان وفاقی سیکرٹریز کے ساتھ اجلاس میں شرکت کرتے ہیں ۔ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی ایس آئی کی اجلاس میں عدم شرکت افسوسناک ہے ۔ہماری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں قوم کے نمائندگان کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے کا حساس معاملہ ہے ایجنسیاں قابل احترام ہیں اور قومی سلامتی اہم ترجیع بھی ہے لیکن عوام کے منتخب نمائندوں کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے وزراء کو آپس میں لڑوانے اور سرکاری اداروں میں سی ڈیز کی تقسیم کا معاملہ سنگین ہے۔

آئین کے ذریعے ہی ادارے قائم ہوئے پارلیمنٹ بالادست ہے اور ریاستی ادارے بمعہ وزیراعظم پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں قواعد میں درج ہے کہ پارلیمنٹ کوئی بھی سرکاری دستاویز طلب کر سکتی ہے اور ہر شخص کو طلب کیا جاسکتا ہے اور پارلیمانی جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کے کسی بھی فیصلے کو چیلنج بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر الزام غلط ہے تو وضاحت کی جائے اگر کسی ممبر پارلیمنٹ کے بارے میں شک ہے ۔

تو اُسے بھی آگاہ کیا جائے ۔آئی ایس آئی اورایم آئی کو پارلیمنٹ کی کمیٹی میں حاضر ہونے سے استثنیٰ نہیں ہے فون اگر قومی مفاد میں ٹیپ کیے جارہے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی ناراض ہیں لیکن وجوہات سے ملک وقوم کو آگاہ کرنا ضروری ہے ۔برطانیہ کا وزیراعظم ہر بدھ کے دن پارلیمنٹ میں خود جواب دیتا ہے اور وزیراعظم پاکستان بھی پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے پارلیمنٹ ،پارلیمانی کمیٹیوں اور ممبران کی عزت ،وقار کا احترام بیورو کریسی پر لازم ہے عوام کے خوابوں اور امید وں کے مرکز ، نمائندگان کیا غدار یا ملک دشمن یا سازشی ہیں اگر کوئی کام قومی مفاد میں کیا جارہا ہے تو آگاہ کیا جائے آئی بی فون ٹیپ میں ملوث ہے یا نہیں وضاحت کی جائے۔

اگر اخباری خبر غلط ہے تو پھر بھی ایجنسیاں وضاحت کریں اور حقیقت سے آگاہ کیا جائے وزارء کو لڑانے ممبران کے فون ٹیپ کرنے سے پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے میڈیا آزاد ہے کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی جن ایجنسیوں پر الزامات ہیں وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکمل تحقیقات کرکے پارلیمنٹ ، کمیٹی ، ممبران اور عوام کو حقیقت سے آگاہ کریں پارلیمنٹ جمہوریت اور ریاستی اداروں کے مفاد میں ہے کہ الزامات کی وضاحت کی جائے اور تحقیقات کرکے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ اب ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں دنیا بدل چکی ماضی کو بھولناہو گا ۔

قواعد و ضوابط واستحقاق اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی ہے غیر حاضر بیوروکریٹس کے خلاف قواعد کے تحت کارروائی کے لئے معاملہ اعلیٰ سطح پر اُٹھایا جائے قومی سلامتی ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن ماورائے قانون و آئین اقدامات نہیں کیے جا سکتے اور کہا کہ پاکستان کی فوج اور ایجنسیاں دنیا کی اولین سطح پر ہیں انتہائی اہم اداروں پر الزامات کا جواب دے کر قوم کو حقیقت سے آگاہ کیا جائے۔

جمہوری ریاستوں میں ماورائے قانون و آئین اقدامات کی اجازات نہیں ۔کسی کی بے عزتی نہیں چاہتے حقائق سے آگاہی لازمی ہے خفیہ سچ بتا دیا جائے۔ سینیٹر چوہدری جعفر اقبال نے کہا کہ پارلیمانی نظام کو چلنے دیا جائے اس میں ہی سب کی بقاء ہے زبردست جدو جہد کے بعد قائم ہونی والی جمہوری حکومت کو اور زیادہ مضبوط کرنیکی ضرورت ہے اور وزیرداخلہ ،سیکرٹری داخلہ کی کمیٹی کے اہم اجلاس میں عدم موجودگی کے باعث تجویز دی کہ کمیٹی کا اجلاس وزارت داخلہ میں ہی کر لیا جائے جس پر چیئرمین قائمہ کمیٹی سینیٹر طاہر مشہدی نے کمیٹی اراکین سے کہا کہ وزیرداخلہ سینیٹ اور سینیٹ کی کمیٹیوں سے ناراض ہیں اُن کو منا کر راضی کیا جائے ۔

سینیٹر عبد الرؤف نے کہا کہ ملک دشمنوں اور ممبران پارلیمنٹ کو ایک ہی کٹہرے میں کھڑا نہ کیا جائے ادارے اپنی مشکلات سے آگاہ کریں کمیٹی پوری مدد کرے گی ۔میاں نوازشریف کی سربراہی میں قائم جمہوری حکومت کو کمزور کرنے کی سازشیں بند کی جائیں اور کہا کہ وزارت دفاع وزارت داخلہ میں نوکری کرنے والے یا دوسری وزارتوں سے آنے والے بیوروکریٹس کا رویہ تبدیل نہیں ہونا چاہیے ۔

سینیٹر حاجی عدیل نے سوال اُٹھایا کہ کیا ہم ہٹلر کے نازی دور کیمونزم کے زمانے یا کسی بادشاہت کے شہری ہیں اور کہا کہ معلوم نہیں قومی سلامتی کے فیصلے کا اختیا رکس کو ہے شہری اور ممبر پارلیمنٹ کے فرق کو واضع کیا جائے حکومتیں صدور وزراء اعظم بیوروکریٹس تک بک جاتے ہیں ہم اپنے لئے اکٹھے نہیں ہوئے قومی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں اخباری رپورٹر اپنی رپورٹ پر قائم ہے ایجنسیوں کی طرف سے تردید اور وضاحت اب تک شائع نہیں ہوئی الزامات کی حقیقت سے آگاہی ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے وزیر داخلہ تسلیم کرتے ہیں کہ ملک میں 26 ایجنسیاں ہیں، پتہ چلایا جائے کس ایجنسی نے فون ٹیپ کیے؟ اور کہا کہ اگر پارلیمنٹ لاجز کے نظام کی تحقیق کی جائے تو وہاں سے بھی خفیہ آلات برآمد ہونگے ۔

ایڈیشنل سیکرٹری وزارت دفاع آصف نذیر نے کہا کہ ایم آئی باقاعدہ محکمہ نہیں جی ایچ کیو کے ماتحت ہے دونوں ایجنسیز کے ڈائریکٹر جنرل کی جگہ میری حاضری کو قبول کیا جائے جس پر چیئرمین قائمہ کمیٹی کرنل (ر)طاہر مشہدی نے سختی سے کہا کہ کوئی بھی شخصیت یا ادرہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہے اگلے اجلاس میں پوری تفصیل کے ساتھ دونوں افسران خود موجود ہونے چاہئیں ۔

سیکرٹری داخلہ کی اجلاس میں غیر موجودگی کے بارے میں ممبران کے سوالات کے جواب میں جوائنٹ سیکرٹری سلمان خان نے آگاہ کیا کہ وفاقی سیکرٹری برطانیہ میں ہیں وزارت میں تین ایڈیشنل سیکرٹریز ہیں ایک سرکاری اجلاس میں اور دوسرے دورے پر ہیں اور تیسرے کے بارے می جواب نہ دے سکے ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا اولین ترجیح دیتے ہیں اور یقین دلایا کہ کسی بھی ممبر کا ٹیلی فون ٹیپ نہیں کیا جارہا ۔

متعلقہ عنوان :