حکومت نے جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی کے تحفظات دور نہ کئے، مذاکرات کے دوران ہی 21 آئینی ترمیم منظور ، مذہبی جماعتیں شدید برہم، جلد غیر فعال ایم ایم اے کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کرلیا، مشاورتی اجلاس کی روداد، سانحہ پشاور کومذہبی طبقات کیلئے 9/11نہ بنایا جائے ایسا لگتاہے کہ ایک مرتبہ پھر دہشت گردی و مذہب کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، ملک کو سیکولر بنانے اور مذہبی تقسیم پیداکرنے کی سازش کامیاب نہیں ہونے دینگے ، مولانافضل الرحمن،تمام فرقوں کی نمائندگی کرتے ہیں، ایل ایف او کا طعنہ دینے والوں نے خود جمہوری دور میں ہی فوجی عدالتوں کا تحفہ دے ڈالا، دہشتگردی کے خلاف قوم متحد لیکن حکمرانوں کا رویہ بیگاڑ پیدا کررہاہے، دہشتگردی ہر صورت میں سنگین جرم کچھ قوتیں دہشت گردی کے زمرے سے باہر آنے کیلئے بضد تھیں،حکومت میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ مشاورت سے کرینگے، سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی پریس بریفنگ

بدھ 7 جنوری 2015 09:50

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔7 جنوری۔2015ء ) قومی اسمبلی میں حکومت نے جے یو آئی (ف) اور جماعت اسلامی کے تحفظات دور نہ کئے، مذاکرات کے دوران ہی 21 آئینی ترمیم منظور کرلی گئی ، مذہبی جماعتیں شدید برہم، جلد تمام مسالک کی نمائندہ تنظیم غیر فعال ایم ایم اے کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کرلیا، مولانافضل الرحمن نے کہاہے کہ سانحہ پشاور کومذہبی طبقات کیلئے 9/11نہ بنایا جائے ایسا لگتاہے کہ ایک مرتبہ پھر دہشت گردی و مذہب کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، ملک کو سیکولر بنانے اور مذہبی تقسیم پیداکرنے کی سازش کامیاب نہیں ہونے دینگے تمام فرقوں کی نمائندگی کرتے ہیں، ہمیں ایل ایف او کا طعنہ دینے والوں نے خود جمہوری دور میں ہی فوجی عدالتوں کا تحفہ دے ڈالا، دہشت گردی کے خلاف قوم متحد ہے لیکن حکمرانوں کا رویہ بیگاڑ پیدا کررہاہے، دہشت گردی کر صورت میں سنگین جرم ہے لیکن کچھ قوتیں دہشت گردی کے زمرے سے باہر آنے کیلئے بضد تھیں،حکومت میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ مشاورت سے کرینگے۔

(جاری ہے)

منگل کے روز جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مشترکہ پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس چیئرمین کشمیر کمیٹی کے چیمبر میں ہوا۔ اجلاس کی سربراہی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے کی جبکہ جماعت اسلامی کے پارلیمانی سربراہ صاحبزادہ طارق اللہ نے معاونت کی ۔ اس موقع پر دونوں جماعتوں کے تمام اراکین قومی اسمبلی مشاورتی اجلاس میں موجود تھے بعدازاں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر جمعیت علمائے اسلام (ف)اور جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈرز کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانافضل الرحمن نے کہاکہ قومی اسمبلی میں آرمی ایکٹ کی جو ترامیم منظور کرائی گئی ہیں دونوں مسودوں کی تیاری کے وقت ہمیں اعتماد میں نہیں لیاگیا۔

آج جب ہم نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہاکہ امتیازی اشارات کو ختم کیاجائے اس سے ملک میں تقسیم پیدا ہوگی، قوم دہشت گردی کیخلاف ایک صف میں کھڑا ہونا چاہتی ہے یہ لب و لہجہ بیگاڑ پیدا کرنے گا ، بعض کی قانون میں نشاندہی اور بعض کو کھلی چھوٹ دی جائے ۔ دہشت گردی مذہبی اور غیر مذہبی میں تقسیم نہیں ہوسکتی، دہشت گردی کو ایک سنگین جرم قرار دیا جائے۔

انہوں نے کہاکہ وزراء کی ٹیم ہمیں اطمینان دلوانے آئی ہم نے مشاورت کے بعد جواب دینے کا کہا ۔ جے یو آئی ف اور جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈرز و اراکین بات چیت کررہے تھے ک ایوان سے ترمیم پاس کرلی گئی یہ کیسے مذاکرات ہیں یہ انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہے۔ کچھ قوتیں اس بات پر بضد تھیں کہ وہ دہشت گردی کے زمرے سے باہر آئیں ۔ مذہبی دنیا اور مدارس کو پیغام دیا گیاہے کہ 9/11 کے بعد جس طرح تمام توپوں کا رخ مذہبی لوگوں کی جانب تھا آج سانحہ پشاور کے بعد وہی کوشش ایک مرتبہ پھر کی جارہی ہے۔

سانحہ پشاور ہمارے لئے سب سے زیادہ کرب کا باعث ہے کیونکہ یہ لوگوں کیلئے خبر اور ہمارے لئے گھر کا سانحہ ہے سانحہ پشاور کو 9/11 کیوں بنایا جارہاہے ۔ انہوں نے کہاکہ تمام فرقوں کی نمائندگی کررہے ہیں دہشت گردی اور مذہب کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ،سیکولر ذہن کے لوگ دہشت گردی کیخلاف جنگ نہیں لڑ سکتے اس پر غور کیلئے ایم ایم اے ، اتحاد مدارس تنظیمات سمیت مذہبی طبقات کا اہم اجلاس بلائینگے اور بل کو دیکھ کر جامع رد عمل دینگے۔

انہوں نے کہاکہ شکر ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس گناہ سے محفوظ رکھا ۔ انہوں نے کہاکہ اسلامی پاکستان کو کسی صورت سیکولر پاکستان نہیں بننے دیا جائیگا ماضی قریب میں ہمیں ایل ایف او اور سترھویں ترمیم کا طعنہ دینے والے ملٹری کورٹس لے آئے ۔ انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کی تحقیقات کا کیا ہوگا جو سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز اور ایک صوبے کے وزیر داخلہ کی جانب سے ایک گروہ کو تین لاکھ بندوقیں دینے پر مبنی تھا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ لگتاہے کہ ہمارے صاحب پریشر میں آگئے ہیں یا ٹریپ ہوگئے ہیں ۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ حکومت میں رہنے یا نہ رہنے کافیصلہ مشاورت کے بعد کرینگے اور اس کا جواب بھی سیاسی فورم پر ہی دینگے ۔قبل ازیں دونوں جماعتوں کا مشترکہ مشاورتی اجلاس ہوا جس میں 21 ویں آئینی ترمیم پر تحفظات کا اظہار کیاگیا اس موقع پر حکومتی ٹیم نے ان سے مذاکرات کئے جس پر مشاورت بارے کہاگیااور مذاکرات جاری تھے کہ اسی اثناء میں آئینی ترمیم کو قومی اسمبلی سے منظور کرالیاگیا جس پر دونوں مذہبی و سیاسی جماعتوں نے شدید برہمی کا اظہار کیااور فیصلہ کیا کہ آئندہ کا لائحہ طے کرنے کیلئے متحدہ مجلس عمل میں شامل تمام جماعتوں کو مدعو کرنے کے ساتھ ساتھ اتحاد تنظیمات المدارس اور دیگر مذہبی جماعتوں کے ساتھ بھی مشاورت کی جائیگی اور اس کے بعد آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائیگا۔

قبل ازیں منگل کی صبح مولانافضل الرحمن نے تحفظات دور کرنے کیلئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید مولانافضل الرحمن کے تحفظات دور کرنے کیلئے ان کی رہائش گاہ پر گئے اس موقع پر مولانافضل الرحمن نے انہیں 21ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ کے حوالے سے تحفظات سے آگاہ کیا۔ باوثوق ذرائع نے ”خبر رساں ادارے “ کو بتایاکہ جے یو آئی ف نے قانونی ماہرین کی مشاورت سے تیار کردہ 3 تجاویز حکومتی کمیٹی کو دیں جن میں پہلی تجویز یہ تھی کہ مجوزہ آئینی مسودے سے فرقہ واریت اور مدارس کے الفاظ حذف کئے جائیں، دوسری تجویز میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کے حق کا مطالبہ کیا گیا جبکہ تیسری تجویز میں فوجی عدالتوں کی مجوزہ 2 برس کی مدت میں مزید توسیع نہ ہونے کی یقین دہانی کا مطالبہ کیاگیا ۔

ذرائع نے مزید بتایاکہ اس سلسلے میں اہم پیش ہوگئی تھی لیکن اچانک ہی قومی اسمبلی سے منظوری سے مذہبی رہنما برہم ہوگئے۔