صدر ممنون حسین کوفوجی عدالتوں کے قیام کو قانون بنانے کیلئے اگلے ہفتے تک انتظارکرناپڑسکتا ہے ،دونوں بل ایک ہی روز پیش یا منظور نہیں کئے جاسکتے ،صدرکے فوری دستخطوں سے پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کابل مزیدمتنازعہ بن سکتاہے،قانونی ماہرین

بدھ 7 جنوری 2015 09:27

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔7 جنوری۔2015ء)صدرمملکت ممنون حسین کوفوجی عدالتوں کے قیام کو قانون بنانے کیلئے اگلے ہفتے تک انتظارکرناپڑسکتاہے ،اس سلسلے میں بہت سی رکاوٹیں ہیں ،قانونی ماہرین متنبہ کرچکے ہیں کہ صدرکے فوری دستخطوں سے پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کابل مزیدمتنازعہ بن سکتاہے ۔پارلیمانی روایات کے مطابق آئین میں 21ویں ترمیمی بل سینٹ سے پاس ہونے کے فوری بعدبھیجا جائے گا ،لیکن فوجی قانون کو شاید کہ اس کے بعدابھی تک آرٹیکل 75کے تحت صدرکی منظوری نہ مل سکے ،اس عمل میں سینٹ بھی قومی اسمبلی والی غلطی نہ دہرائے ۔

قانونی ماہرین کے مطابق دونوں طرف کے تجربہ کارپارلیمنٹرین نے بھی اس بات کونظراندازکیاہے اوروزیراطلاعات کی طرف سے دوبل اکٹھے پیش کرنے پرکوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔

(جاری ہے)

دونوں بل ایک ہی روز پیش یا منظور نہیں کئے جاسکتے ، سپیکرقومی اسمبلی اوران کے عملہ کی توجہ صرف آئینی بل پر رائے شماری کے طریقہ کارپرمرکوزنظرآتی ہے ،عام قانون سازی کے برعکس ترمیم میں ہرشق اورشیڈول پرممبران کاگنتی کیلئے اپنی سیٹوں سے اٹھناضروری ہے اورآخری منظوری کے لئے لابی میں تقسیم کاطریقہ ہوتاہے ،اور حتمی منظوری کے عمل میں لابیز میں تقسیم ہونے کا طریقہ کار ہے ۔

آئین میں ترمیم کے لئے پاکستان آرمی(ترمیم)بل 2015ء پرغورکیلئے قانونی شرط تھی اکثریت نے سوچاکہ قانوناووٹنگ شروع ہونے سے پہلے اس میں ترمیم ہوچکی تھی لیکن یہ سچ نہیں ہے ، ایوان میں غلط فہمیوں سے مزید اور سرکاری خرچہ آئے گا ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں میں ابھی تک ترمیم نہیں ہوئی اور لہدا ابھی تک فوجی عدالتوں کاقانون قبل ازوقت ہے ،فوجی عدالتوں کے قیام میں تاخیرجلدبازی کانتیجہ ہوگاتووہ صرف قانونی چیلنجوں کوسہولیات مہیاکریں گی ۔

مبصرین کے مطابق وزیراعظم نے قابل اعتماد ساتھیوں پر انحصار کرکے بڑی ڈیل کی کوشش کی تھی تاہم آٹھ رکنی کچن میں طریقہ کاراور منظوری پر تیزی سے تقسیم پیدا ہو گئی ۔انہوں نے فوج کوون ڈش پارٹی پرقائل کرنے کی کوشش کی ،آفیسرز میس نے قانونی پیچیدگیوں کے باعث اسے اس تناظر میں مستردکردیاہے کہ شاید قانون میں ترمیم میں رکاوٹیں پیدا ہو جائیں ۔

قانون دانوں نے بڑے پیمانے پردوبل پاس کرنے کے آئینی طریقہ کارکونظراندازکردیاہے اوران کے درمیان وقت کاوقفہ ضروری ہے ،یہ کام سپیکرکے سپردکیاگیا،جنہیں آئین میں ترمیم کے حوالے سے کوئی تجربہ نہیں ہے ،تکنیکی طورپرصدرکواختیارہے کہ وہ فوجی بل کودس دن کے اندرواپس پارلیمنٹ بھیج دے اورپارلیمنٹ دوبارہ مشترکہ اجلاس میں اس پرغورکرے ،جبکہ اس مرحلے پر مسلح افواد کے سپریم کمانڈراس کے متحمل نہیں ہیں ،اوراگروہ اس بل کی منظوری دیتے ہیں دو صرف قانونی چیلنج کی راہ ہموار کرینگے ،بل ایک ہی دن اورایک وقت اکٹھے پاس نہیں کئے جاسکتے ۔

قانونی ماہرین کے مطابق وزیراعظم کی مفاہمت کی خواہش اوربحث نہ کرانے سے الٹااثرہواہے ،ان کے سیاسی اتحادی نئے ساتھیوں کی طرف دیکھ سکتے ہیں ،13ویں ترمیم سے متعلق ان کی اچھی یادیں مختلف ہیں ،1995ء میں انہوں نے صرف فوج کے نیچے سے قالین کھینچاتھاجب انہوں نے قومی اسمبلی توڑنے کے صدرکے اختیارات متفقہ ووٹ کے ذریعے واپس لئے تھے ،بے نظیربھٹونے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیاتھاان کی پارٹی نے منگل کے روزبھی ایساہی کیاہے لیکن حالات مختلف ہیں۔

متعلقہ عنوان :