وفاقی بیورو کریٹس ترقیا ں کیس ،اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدا لتی حکم پر عمل درآمد کے لئے وفاقی حکومت کو 3 دن کی مہلت دے دی آئندہ سوموار تک تحریری رپورٹ طلب ، حکو مت صرف بیانات کی حد تک کام کرتی ہے۔ عدالتوں کے احکامات پر عملدرامد نہیں ہوتا حکومت کہتی ہے عدالتوں میں کام نہیں ہوتا جبکہ حکومت عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کرتی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے ریمارکس

جمعہ 16 جنوری 2015 08:33

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17جنوری۔2015ء)اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی بیورو کریٹس کو گریڈ 20 سے گریڈ 21 میں ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق ترقی دینے کے معاملے پر عمل درآمد کر کے وفاقی حکومت کو 3 دن کے اندر مہلت دیتے ہوئے آئندہ سوموار تک تحریری رپورٹ طلب کر لی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ابتدائی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ حکومت صرف بیانات کی حد تک کام کرتی ہے۔

عدالتوں کے احکامات پر عملدرامد نہیں ہوتا حکومت کہتی ہے عدالتوں میں کام نہیں ہوتا جبکہ حکومت عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کرتی۔ 3 مارچ 2013ء ڈسٹرکٹ کورٹ اسلام آباد میں دہشت گردی کا تاریخی واقعہ رونما ہوا کئی جانیں ضائع ہوئیں ابھی تک کچھ نہیں ہوا اور نہ ہی حکومت نے وکلاء اور دیگر لوگوں کو امداد تک دی۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے کہا ڈسٹرکٹ کورٹس کی عدالتیں دوکانوں میں قائم ہیں کیا حکومت کو نظر نہیں آتا‘ اسلام آباد ہائیکورٹ کی بلڈنگ مکمل نہیں ہو سکی‘ حکومت کے لوگ صرف عدالتوں پر بیانات دینے کے لئے ہیں کہ عدالتیں کام نہیں کرتیں۔

حکومت عدالتوں کے فیصلوں کا مذاق اڑا رہی ہے۔ عدالت کے حکم پر عمل درآمد نہ ہوا تو عدالت اپنے آئینی اختیارات استعمال کرے گی۔ وفاق کے وکیل کو عدالت نے 3 دن کے اندر بیورو کریٹس کو گریڈ 21 میں ترقی دینے کے حکم پر عملدرآمد کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے رپورٹبھی طلب کر لی ہے۔جمعرات کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں مختلف محکموں کے بیورو کریٹس کے پروموشن کیسز کی سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس محمد انور خان کاسی پر مشتمل سنگل بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزارون کی وکیل عاصمہ جہانگیر اور ڈپٹی اٹارنی جنرل اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے لوگ عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران عاصمہ جہانگیر نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی بیورو کریٹس کو ترقی دینے کے لئے سنٹرل سلیکشن بورڈ نے وزیراعظم کو سمری بھیجی تھی لیکن وزیراعظم نے پک اینڈ چوائس کے تحت من پسند افسران کو گریڈ 21 میں ترقی دی اور باقی لوگوں کے نام مسترد کر دیئے گئے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ یہ وفاقی بیورو کریٹس پولیس‘ پاکستان ایڈمنسٹریٹو گروپ فارن آفس ‘ آئی آر ایس اور کسٹم وغیرہ کے محکموں سے ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ وفاقی بیورو کریٹس کی ترقی کے لئے 2 فروری 2014ء میں اجلاس ہوا تھا وزیراعظم کی جانب سے ترقی نہ دینے پر عدالت عالیہ سے رجوع کیا اور عدالت عالیہ نے جولائی 2014ء میں حکومت کو احکامات جاری کئے تھے کہ عدالت کے حکم کے مطابق ان بیورو کریٹس کو گریڈ 21 میں ترقی دی جائے۔

درخواست گزاروں کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے عدالت کے فیصلے کے بعد اپیل بھی سپریم کورٹ میں دائر کی جو کہ مسترد ہوئی تھی۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا حکومت لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور غلط رپورٹ عدالت میں جمع کروائی گئی ہے جبکہ عدالت عالیہ کے فیصلے کے بعد حکومت نے کوئی حکم امتناعی بھی حاصل نہیں کیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا حکومت صرف کہتی ہے عدالتو ں میں کام نہیں ہوتا جبکہ عدالتوں کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔

حکومت عدالتوں کے فیصلوں کا مذاق اڑاتی ہے۔ وفاق کے وکیل نے عدالت سے وقت لینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے کہا کیا عدالت آج ہی فیصلے پر عملدرآمد کروانے کا حکم دے بہتر ہے 3 دن کے اندر عدالتی حکم پر عملدرآمد کروائیں اور سوموار کو رپورٹ عدالت میں جمع کروائیں۔ چیف جسٹس نے کہا حکومت کو نظر نہیں آتا ڈسٹرکٹ کورٹس اسلام آباد کی عمارتوں اور دکانوں میں موجود ہیں۔

سانحہ کچہری کے واقعہ کے بعد حکومت نے کوئی اقدامات نہیں کئے۔ ہائیکورٹ کی عمارت مکمل نہیں کی گئی۔ حکومت صرف عدالتوں پر تنقید کرنے کے لئے ہی ہے۔ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوا تو عدالت آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کارروائی کرے گی۔ عدالت نے وفاقی بیورو کریٹس جن کی تعداد 50 سے زیادہ ہے کو عدالتی حکم پر گریڈ 21 میں ترقی دینے کے احکامات جاری کرتے ہوئے کیس کی آئندہ سماعت سوموار تک ملتوی کر دی ہے۔