پاکستان سے پیرس تک دہشتگردی کانشانہ بننے والے ہرشخص کیساتھ ہیں، باراک اوباما ، دہشت گردوں کا شکار کرنے اور انکے نیٹ ورک کا خاتمہ کرنے کا عمل جاری رکھیں گے،اس سلسلے میں امریکا یک طرفہ طور پر کاروائی کرنے کاحق محفوظ رکھتا ہے۔ہماری دو نسلوں نے خطرناک اور مہنگی جنگیں لڑیں، اب ہم اپنی فوج استعمال کرنے کے بجائے، جہاں جس کا مسئلہ ہے اسے وہاں تربیت اور فنڈ دے کر مضبوط کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں، دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے میں وقت لگے گا مگر ہم کامیاب ہوں گے ،امریکی صدر کا کانگریس سے سالانہ خطاب

جمعرات 22 جنوری 2015 09:05

واشنگٹن ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔22جنوری۔2015ء )امریکی صدرباراک اوباما نے کہا ہے کہ امریکاپاکستان سے لیکرپیرس تک دنیا بھر میں دہشتگردی کے شکار لوگوں کے ساتھ ہے، دہشت گردوں کا شکار کرنے اور انکے نیٹ ورک کا خاتمہ کرنے کا عمل جاری رکھیں گے،اس سلسلے میں امریکا یک طرفہ طور پر کاروائی کرنے کاحق محفوظ رکھتا ہے، دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے میں وقت لگے گا مگر ہم کامیاب ہوں گے ،یہ بات انہوں نے کانگریس سے سالانہ اسٹیٹ آف دی یونین سے سالانہخطاب میں کہی۔

امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ ہم دہشت گردوں کا شکار کرنے اور انکے نیٹ ورک کا خاتمہ کرنے کا عمل جاری رکھیں گے، اس سلسلے میں امریکا یک طرفہ طور پر کاروائی کرنے کاحق محفوظ رکھتا ہے۔اوباما کا کہنا تھا کہ ا نکے صدارتی دور میں امریکا نے ایسے دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں کی جن سے امریکا اور اسکے اتحادیوں کو براہ راست خطرہ لاحق تھا۔

(جاری ہے)

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ گزشتہ 13 سال میں ہم نے کچھ مہنگے سبق بھی سیکھیں ہیں۔ہماری دو نسلوں نے خطرناک اور مہنگی جنگیں لڑیں، لیکن وقت سے بہت کچھ سیکھا ، ان کا کہنا تھا کہ ہم اب اپنی فوج استعمال کرنے کے بجائے، جہاں جس کا مسئلہ ہے اسے وہاں تربیت اور فنڈ دے کر مضبوط کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ اوباما نے کہا کہ 6 سال پہلے امریکی معیشت کو مضبوط کرنیکاوعدہ کیاتھا اور مثبت پالیسیوں سے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔

معیشت کی بحالی کے لیے عدم مساوات کو ختم کرنا ہوگا۔ ایران پر مزیدپابندیاں عائدکرنے حوالے سے اوباما کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سیسفارتکاری کونقصان پہنچے گا۔ امریکا کو کیوباکیساتھ بہترتعلقات استوارکرناہوں گے جس کے لیے کانگریس قانون سازی کرے۔امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ آج افغانستان میں ہمارا جنگی مشن مکمل ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعدکے تمام افرادکوسلیوٹ پیش کرتے ہیں۔

امریکاپاکستان سے لیکرپیرس تک،دہشتگردی کاشکارتمام افرادکے ساتھ ہے۔ چاہے وہ دہشت گردی پاکستان کے اسکول میں ہویاپیرس کی سڑکوں پر،پوری دنیامیں دہشت گردی کے شکارافرادکیساتھ ہیں۔امریکی صدر نے کہا کہ اقتصادی بحران کاسایہ امریکاسے ختم ہوگیا۔امریکی صدر نے کہا ہے کہ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے میں وقت لگے لگا لیکن ان کا ملک جس وسیع تر اتحاد کی قیادت کر رہا ہے وہ اس شدت پسند گروپ کو کمزور کر کے بالاخر شکست دے دے گا۔

اوباما نے کانگریس سے مطالبہ کیا کہ وہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف طاقت کے استعمال کی منظوری دے۔اوباما نے کہا کہ عراق اور شام میں امریکی قیادت میں اتحاد دولتِ اسلامیہ کی پیش قدمی روک رہا ہے: ’مشرقِ وسطیٰ میں ایک اور زمینی جنگ میں گھسیٹے جانے کی بجائے ہم ایک وسیع تر اتحاد کی قیادت کر رہے ہیں جس میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ ہم شام میں ایک روشن خیال حزبِ مخالف کے بھی حامی ہیں جو اس کوشش میں ہماری مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم ہر جگہ ان لوگوں کی مدد کر رہے ہیں جو پرتشدد انتہاپسندی کے نظریے کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔ اس کوشش میں وقت لگے گا اور اس پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی لیکن ہم کامیاب ہوں گے۔ اوباما نے خلیج گوانتانامو کے حراستی مرکز کو بند کرنے کا عزم دہرایا۔ انھوں نے اپنے پہلے سٹیٹ آف یونین خطاب میں یہ قیدخانہ بند کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا اور اب بھی وہاں 122 افراد قید ہیں۔

امریکی صدر نے کہا کہ ’یہ کام ختم کرنے کا وقت ہے اور میں اسے بند کرنے کے بارے میں اپنا عزم متزلزل نہیں ہونے دوں گا۔ایران کے جوہری پروگرام پر بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہہمارے پاس ایک ایسا جامع معاہدہ کرنے کا موقع ہے جو جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران سے بچاتا ہے اور امریکہ اور اسرائیل سمیت اس کے اتحادیوں کو محفوظ بناتا ہے۔‘امریکی کانگریس کی جانب سے ایران پر نئی پابندیوں کے معاملے پر بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ اس وقت پابندیوں کی کوئی توجیہ نہیں اور وہ کسی بھی ایسے بل کو ویٹو کر دیں گے جو موجودہ مذاکراتی عمل کے لیے خطرہ بنے گا۔

اوباما نے یہ بھی کہا کہ ’اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس سلسلے میں مذاکرات کامیاب ہی ہوں گے اور ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھنے کے لیے تمام آپشن موجود ہیں۔ تاہم کانگریس کی جانب سے اس وقت عائد کی جانے والی نئی پابندیاں اس بات کو یقینی بنا دیں گی کہ بات چیت ناکام ہو جائے اور امریکہ اپنے اتحادیوں سے الگ ہو جائے۔امریکی صدر نے کانگریس پر زور دیا کہ وہ سائبر حملوں سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کرے: اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو ہم اپنی قوم اور معیشت کو کمزور کریں گے۔

‘شمالی کوریا سے حالیہ سائبر تنازع کے تناظر میں امریکی صدر نے اپنی تقریر میں کہا کہ کسی بھی ملک یا ہیکر کو امریکہ کے نیٹ ورک بند کرنے، تجارتی راز چرانے یا امریکی شہریوں خصوصاً بچوں کی نجی زندگی میں دخل اندازی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔انھوں نے کہا کہ ’ہم یقینی بنا رہے ہیں کہ ہماری حکومت سائبر خطرات سے نمٹنے کے لیے خفیہ معلومات کے تبادلے کا ایسا ہی نظام بنائے جیسا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا تھا اور آج رات میں کانگریس پر زور دیتا ہوں کہ وہ ہمیں درپیش سائبر خطرات، شناخت کی چوری اور بچوں کی معلومات کے تحفظ کے حوالے سے قانون سازی کرے۔

امریکی صدر نے کانگریس پر زور دیا کہ وہ کیوبا کا تجارتی مقاطعہ ختم کرنے کے لیے کام شروع کر دے۔ ان کا کہنا تھا کیوبا کے لیے امریکہ کی پالیسی میں حالیہ تبدیلی میں بداعتمادی کے ورثے کو ختم کرنے کی صلاحیت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سابقہ پالیسی پانچ دہائیوں میں کچھ نہ کر سکی اور اب وقت ہے کہ کچھ نیا طریقہ آزمایا جائے۔’ہم کیوبا کے بارے میں اپنی اس پالیسی کو ختم کر رہے ہیں جس کی مدتِ استعمال بھی کب کی ختم ہو چکی۔ جب آپ جو 50 برس سے کرتے آ رہے ہیں کام نہ آئے تو کچھ نیا کرنے کا وقت ہوتا ہے۔‘