اوبامہ اور مودی معاہدوں نے جنوبی ایشیاء کو عدم استحکام سے دوچار کردیا،سیکرٹری خارجہ،پاکستان نے امریکہ کو اپنی تشویش سے آگاہ کردیا ہے،اس دفعہ ہم نے امریکہ سے ڈومور کا کہا ہے،حکومت کی خارجہ پالیسی دلیرانہ ہے،بھارتی رویہ سے مرعوب نہیں ہوں گے،بھارت سلامتی کونسل کا مستقل ممبر نہیں بن سکتا،افغانستان اور پاکستان ایک نئی پالیسی پر عمل پیرا ہیں،بھارت افغان زمین کو استعمال کرکے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کر رہا ہے ،امریکہ پاکستان کو بائی پاس نہیں کرسکتا،پاکستان کی اپنی اہمیت ہے،سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی ،غیر ملکی سفیروں کو سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری کی بریفنگ

جمعہ 30 جنوری 2015 09:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔30جنوری۔2015ء)سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا ہے کہ اوبامہ اور مودی کے مابین ہونے والے معاہدوں نے جنوبی ایشیاء کو عدم استحکام سے دوچار کردیا ہے،پاکستان نے امریکہ کو اپنی تشویش سے آگاہ کردیا ہے،اس دفعہ ہم نے امریکہ سے ڈومور کا کہا ہے،حکومت کی خارجہ پالیسی دلیرانہ ہے،بھارتی رویہ سے مرعوب نہیں ہوں گے۔

بھارت سلامتی کونسل کا مستقل ممبر نہیں بن سکتا،سلامتی کونسل میں توسیع ایک پیچیدہ معاملہ ہے،پاکستان ہمسایوں سے دوستانہ تعلقات چاہتا ہے،افغانستان اور پاکستان ایک نئی پالیسی پر عمل پیرا ہیں،بھارت افغان زمین کو استعمال کرکے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کر رہا ہے اس کے شواہد ہمارے پاس ہیں،مصر میں بھارتی وزیراعظم نے خود اس کی تصدیق کی ہے۔

(جاری ہے)

امریکہ پاکستان کو بائی پاس نہیں کرسکتا،پاکستان کی اپنی اہمیت ہے۔یہ باتیں انہوں نے سینیٹ کی خارجہ امور بارے قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران کہیں۔اجلاس حاجی عدیل کی صدارت میں ہوا جس میں جہانگیر بدر راجہ ظفرالحق صغری امام وغیرہ نے شرکت کی۔سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان اور بحرین کے مابین دوستانہ تعلقات ہیں،پاکستان کی معاشی ترقی میں بحرین کا اہم کردار ہے۔

بحرین پاکستان میں ہسپتال تعمیر کر رہا ہے،بحرین دفاعی شعبہ میں سرمایہ کاری بھی کرے گا،جان کیری کے حالیہ دورہ پر انہوں نے کہا کہ اوبامہ کے دورہ بھارت کے بارے میں پاکستان کے خدشات بارے جان کیری کو بتایا۔جنوبی ایشیاء میں طاقت کا توازن لانا چاہئے،اوبامہ دورہ بھارت سے توازن خراب ہوا ہے۔عدم توازن کو ختم کرنے میں امریکہ نے کردار ادا کیا اب وہ جنوبی ایشیاء میں تناؤ کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

اوبامہ کے دورہ بھارت کے مضمرات بارے بات کی ہے،پاکستان نے کھل کر اس مسئلہ پر بات چیت کی ہے۔ دہشتگردی کے میدان میں پاکستان نے جتنا کردار ادا کیا ہے کسی اور ملک نے ادا نہیں کیا۔دہشتگردی کا مسئلہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے بھارت سے زیادہ یہ مسئلہ پاکستان کو درپیش ہے،پوری دنیا کو پاکستان کا ساتھ دینا چاہئے۔امریکہ بھارت نیوکلےئر معاہدہ پر پاکستان کو خدشات ہے،نیوکلےئر سیفٹی کے لحاظ سے پاکستان کا کردارمثبت ہے،نیوکلےئر کنٹرول پر ہمارا مثبت رول ہے،سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت پر پاکستان کو خدشات ہیں۔

توانائی کی معاشی معاملات میں پاک امریکہ تعلقات موجود ہیں،دونوں ملک ایک دوسرے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں،اس لحاظ سے کیری کا دورہ اہم ہے۔خارجہ سیکرٹری نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات درست سمت میں جارہے ہیں،پاکستان سے اچھے ہمسائے برادرانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں،دونوں ممالک کے افواج کے تعلقات موجود ہیں،دونوں ملکوں کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے،انٹیلی جنس شےئرنگ پر کام ہورہا ہے،اشرف غنی دور میں تعلقات استوار ہوئے ہیں ،افغانستان کو کسٹم امور پر سہولیات دے رہے ہیں،افغانستان کو کراچی پورٹ پر کسٹم آفس کی اجازت دیں گے،چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کئی سطحوں پر مشتمل ہیں،چین پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہمیت دیتا ہے،ایران کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں،جولائی میں پاک ایران گیس منصوبہ پر پیش رفت ہوگی۔

خارجہ سیکرٹری نے کہا کہ روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے،عرب ممالک یورپین ممالک کے ساتھ گہرانہ دوستانہ تعلقات ہیں،بھارت افغان زمین کو استعمال کرکے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کر رہا ہے اس کے شواہد ہمارے پاس ہیں،مصر میں بھارتی وزیراعظم نے خود اس کی تصدیق کی ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کو بائی پاس نہیں کرسکتا،پاکستان کی اپنی اہمیت ہے۔

سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ اوبامہ بھارت معاہدہ پر تمام سفیروں کو طلب کرکے پاکستان نے اپنی تشویش ظاہر کی ہے،امریکی سفیر بھی اس اجلاس میں موجود تھے اور پاکستان نے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔بابر غوری نے سوال کیا کہ سیکرٹری خارجہ کے بیان سے لگتا ہے کہ پاکستان کا کسی ملک سے کوئی مسئلہ نہیں ہے،حقائق تسلیم کرنا چاہئیں،ہم نے امریکہ کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں امریکہ کیلئے سکولوں مساجد شہروں گلیوں اور پورا ملک غیر محفوظ کیا اور امریکہ بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بنا رہا ہے،امریکہ ہم پر بداعتماد کیوں ہے اور کیا یہ سیکرٹری خارجہ کی ناکامی نہیں ہے۔

سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ امریکہ ہمیں ڈومور کا نہیں کہہ رہا ہے،ہم نے امریکہ کو واضح کیا ہے کہ امریکہ بھارت معاہدہ جنوبی ایشیاء کو عدم استحکام اور عدم توازن سے دوچار کردیگا۔منتخب حکومت نے جرات مندانہ خارجہ پالیسی بنائی ہے،چیلنجز تو ہیں لیکن ناکامی نہیں ہے،ہماری خارجہ پالیسی دفاعی اور نہ مبم ہے بلکہ دلیرانہ ہے تاہم امریکہ نے حقانی کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے امریکہ کی زبان نہیں پکڑ سکتے اس دفعہ ہم نے امریکہ سے ڈومور کا مطالبہ کیا ہے۔

سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی کا مقصد ہمسایہ ملکوں کے ساتھ پرامن تعلقات کا قیام ہے،بھارت سلامتی کونسل کا مستقل ممبر آسانی سے نہیں بنے گا۔سلامتی کونسل میں اصلاحات کا عمل پیچیدہ ہے کئی ملک مستقل ممبر بننا چاہتا ہے جن میں جرمنی،برازیل،جاپان شامل ہیں،بھارت پاکستانی عوام کے حوصلے پست نہیں کرسکتا،مستقل ارکان میں اضافہ کے خلاف ہیں،ہندوستان سے مرعوب نہیں ہوں گے۔

پاکستان نے عالمی برادری سے مسئلہ کشمیر کے فوری حل کیلئے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد کی سفارتی اخلاقی اور سیاسی حمایت جاری رکھی جائے گی،مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت تبدیل کرنے کی بھارتی کوششیں تشویش ناک ہیں،مسئلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہی حل ہو سکتا ہے،نام نہاد انتخابات استصواب رائے کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔

یہ بات سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے جمعرات کو یہاں غیر ملکی سفیروں کے گروپ کو بریفنگ کے دوران کیا جس کا اہتمام کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے سلسلہ میں کیا گیا تھا۔ سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ خطے میں پائیدار امن ، سلامتی اور استحکام کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے ،کشمیری عوام کی حق خودارادیت کی جدوجہد میں قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے ۔

دیرینہ مسئلے کے حل نہ ہونے سے خطے میں کشیدگی پائی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد انتخابات اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے کا متبادل نہیں ہوسکتے ۔ انہوں نے جغرافیائی تبدیلیوں کے ذریعے زمینی صورتحال تبدیل کرنے کی بھارتی کوششوں پر سخت تشویش کا اظہارکیا ۔ سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ عالمی برادری کو اس دیرینہ مسئلے کے حل میں مدد دینی چاہیے بھارتی فوج کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں جن سے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی برادری بخوبی آگاہ ہیں سیکرٹری خارجہ نے امید ظاہر کی ہے کہ عالمی برادری اس مسئلے پر اپنا کردار ادا کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ بامقصد اور تعمیری مذاکرات کا عزم کررکھا ہے تاکہ کشمیر سمیت تمام مسائل حل کئے جاسکیں ۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں حالیہ دنوں میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور مثبت واقعات سامنے آئے ہیں انہوں نے امریکی وزیر خارجہ سے ہونے والے حالیہ رابطے کے بارے میں بھی سفیروں کو آگاہ کیا اور کہا کہ ان رابطوں سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مزید مستحکم ہونگے انہوں نے بتایا کہ دونوں ملکوں نے سٹرٹیجک ڈائیلاگ کے ضمن میں پانچ ورکنگ گروپ بنائے ہوئے ہیں جن کا آپس میں رابطہ ہے اور ان ورکنگ گروپس کے ذریعے مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کی کوششیں جاری ہیں ۔

امریکی صدر کے دورہ بھارت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز بیان دے چکے ہیں جس میں انہوں نے اس دورے کے بعض امور پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے جنوبی ایشیا میں فوجی عدم توازن سمیت علاقائی اور عالمی سطح پر منفی اثرات پڑینگے ۔