اکیسویں ترمیم اور فوجی عدالتوں کا قیام آ ئینی ہے ،وفاقی حکومت نے جواب سپریم کورٹ میں جمع کروادیا ،آئین میں ضرورت کے مطابق ترامیم کی جاسکتی ہیں، بھا رتی سپر یم کو رٹ کا فیصلہ ما ننا ہم پر ضروری نہیں دونو ں مما لک کے آ ئین میں نما یا ں فرق ہے ،بھارت میں دیئے گئے فیصلوں کا پاکستان میں اطلاق نہیں ہوسکتا ،آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ ملک میں ہے نہ ہی اسے عدالت نے کبھی تسلیم کیا ،وفاقی حکومت کا مو قف ، کیس کی سماعت آج دوبارہ ہو گی

منگل 24 فروری 2015 09:35

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 24فروری۔2015ء)وفاقی حکومت نے اکیسویں ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں جواب سپریم کورٹ میں جمع کروادیا ہے ،اٹارنی جنرل آف پاکستان سلمان بٹ کی جانب سے پیر کو جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ ملک میں موجود نہیں اور نہ ہی آئین کے بنیادی ڈھانچے کو عدالت نے کبھی تسلیم کیا ہے ، آئین میں ضرورت کے مطابق ترامیم کی جاسکتی ہیں ، دنیا بھر کے ممالک میں بھی آئین کے بنیادی ڈھانچے کا تصور موجود نہیں ہے ، آئین اور قانون میں ترامیم پارلیمنٹ کا حق ہے اور پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندے موجود ہوتے ہیں جو تمام ترمشاورت کے بعد بدلتے وقت کے تناظر میں آئین اور قانون میں ترمیم کرتے ہیں ، فوجی عدالتیں وقت کی ضرورت ہیں اور یہ لمبے عرصے کے لئے نہیں بنائی گئی ہیں ان کا کام مخصوص حد تک ہے ملک میں دہشتگردی کی لہر کے خاتمے کیلئے ایسا کرنا ناگزیر تھا پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز نے اس کی تائید کی ہے جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت میں دیئے گئے فیصلوں کا پاکستان میں اطلاق نہیں ہوسکتا بھارت اور پاکستان کے آئین اور قانون میں نمایاں فرق ہے بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ پاکستانی آئین کی روح کے منافی ہے اس لئے جو درخواستیں دائر کی گئی ہیں ان کو خارج کیا جائے ۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں اور اکیسویں ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت چوبیس فروری تک ملتوی کی تھی تاہم اس دوران چیف جسٹس ناصر الملک عارضہ قلب میں مبتلا ہوئے اور بعد ازاں اسی تین رکنی بینچ کے ایک اور رکن جسٹس گلزار کے دل کا بھی ایک والو بند ہے جس کی وجہ سے چیف جسٹس ناصر الملک نے اکیسویں ترمیم فوجی عدالتوں اور اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے معاملات کا فیصلہ کرنے کیلئے ایک نیا بینچ تشکیل دیا تھا جس کی سربراہی جسٹس انور ظہیر جمالی کرینگے ان کے ساتھ بینچ میں دو دیگر ارکان بھی شامل ہیں جن میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس مشیر عالم دائر درخواستوں کی سماعت کرینگے اس حوالے سے فریقین کو اطلاعاتی نوٹسز بھی جاری کردیئے گئے ہیں ۔

سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبوں سے جواب مانگا تھا اسی حوالے سے وفاقی حکومت نے اپنا جواب داخل کرادیاہے اور امکان ہے کہ باقی صوبے بھی جواب داخل کرادینگے اکیسویں ترمیم اور فوجی عدالتوں کیخلاف کیس کی سماعت آج منگل کو کی جائے گی ۔