سدرن پاور کمپنی اور جاپان پاور جنریشن نے تین ارب انیس کروڑ روپے وزارت پانی و بجلی کے دبا لئے ، دونوں کمپنیز کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی کم ہے اور باقی کمپنیوں کے مقابلے میں مہنگی بجلی پیدا کررہی ہیں‘ کے پی کے میں اپنی مدد آپ کے تحت بجلی پیدا کرنے کے 356 منصوبوں پر کام جاری ہے جن میں سے رواں سال کے آخر تک 111 منصوبے مکمل ہوجائیں گے۔ سینٹ قائمہ کمیٹی پانی و بجلی

جمعہ 27 فروری 2015 09:17

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 27فروری۔2015ء) قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ سدرن پاور کمپنی اور جاپان پاور جنریشن نے تین ارب انیس کروڑ روپے وزارت پانی و بجلی کے دبا رکھے ہیں جبکہ ان دونوں کمپنیز کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی کم ہے اور باقی کمپنیوں کے مقابلے میں مہنگی بجلی پیدا کررہی ہیں‘ کے پی کے میں اپنی مدد آپ کے تحت بجلی پیدا کرنے کے 356 منصوبوں پر کام جاری ہے جن میں سے رواں سال کے آخر تک 111 منصوبے مکمل ہوجائیں گے۔

سینٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹر زاہد خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں سینیٹر گل محمد‘ مولا بخش چانڈیو‘ خالد پروین‘ ہمایوں خان مندوخیل‘ نثار محمد‘ محسن خان لغاری اور دیگر نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ملک بھر کے تمام بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں (ڈسکوز) کو تحریری طور پر ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ 31 مارچ تک خراب اور قابل مرمت ٹرانسفارمرز کی رپورٹس جمع کرائیں تاکہ انہیں گرمی کا موسم شروع ہونے سے قبل تبدیل کردیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ موسم گرمیں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کیساتھ ساتھ ٹرانسفارمرز کی خرابی ایک بڑا مسئلہ ہے جسے بروقت حل کرلیا جائے گا۔ 31 مارچ کے بعد اگر کسی بھی شہر میں یا کسی علاقے میں کوئی ٹرانسفارمر خراب ہوا تو متعلقہ چیف ایگزیکٹو کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ٹرانسفارمرز کی فراہمی کے حوالے سے ”پیل“ نامی کمپنی نے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کررکھا ہے۔

یہ کمپنی وزارت پانی و بجلی کو 6 لاکھ میں ٹرانسفارمر مہیاء کرتی تھی جبکہ اب اڑھائی لاکھ میں ٹرانسفارمر لئے جارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پیل کمپنی کی طرف سے حکم امتناعی کا کیس لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے اور المیہ یہ ہے کہ دو سال سے کیس کی سماعت نہیں ہوسکی۔ اب عدالتی بنچ بھی تبدیل کرالیا گیا ہے اور امید ہے کہ یہ معاملہ حل ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ عدالتیں ہمیں کام نہیں کرنے دے رہیں۔ زمینوں پر قبضوں کے کیسز بھی زیر التواء ہیں لیکن ساری ذمہ داری وزارت پر ڈال دی جاتی ہے جس پر ہمیں گالیاں پڑتی ہیں۔ اس موقع پر کمیٹی طرف سے سوال اٹھایا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا میں چھوٹے ڈیم اور توانائی کے منصوبوں کا دعویٰ کرتی ہے اس میں کس حد تک حقیقت ہے؟ اس سوال کے جواب میں کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ خیبر پختونخواہ میں اپنی مدد آپ کے تحت 35 میگاواٹ کے 356 منصوبوں پر کام جاری ہے جن کے مکمل ہونے پر 12 اضلاع کے سینکڑوں دیہات جہاں بجلی کی سہولت اس سے قبل نہیں تھی انہیں مفت بجلی مل سکے گی۔

7 میگاواٹ کے 111 منصوبوں پر دسمبر 2015ء میں کام مکمل ہوجائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومتی سطح پر 1 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی لاگت 3 ملین ڈالر ہے جبکہ کے پی کے میں مفت بجلی پیدا کی جائے گی۔ کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ اس پر فیز ون پر کام ہورہا ہے جس پر کام مکمل ہونے کے بعد مزید منصوبوں پر کام شروع ہوگا۔ قائمہ کمیٹی کی طرف سے سدرن الیکٹرک پاور کمپنی اور جاپان پاور جنریشن لمیٹڈ کی کارکردگی پر وزارت پانی و بجلی کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

اس موقع پر بتایا گیا کہ دونوں کمپنیاں 3 ارب 19 کروڑ روپے کی نادہندہ ہیں۔ دیگر کمپنیوں کے مقابلے میں یہ مہنگی بجلی پیدا کررہی ہیں جبکہ ان کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی بہتر نہیں ہے۔ ان کا کیس نیپرا میں زیر سماعت ہے جہاں سے فیصلہ آنے کے بعد ان سے بجلی لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ قبل ازیں قائمہ کمیٹی نے 27 ہزار خالی پوسٹوں پر بھرتی کیلئے این ٹی ایس کی طرف سے اربوں روپے کمانے پر تحفظات ظاہر کئے۔

کمیٹی کے استفسار پر ایڈیشنل سیکرٹری عمر رسول نے بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی ہدایت پر شفاف بھرتیوں کیلئے این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کئے جانے کی شرط رکھی گئی ہے۔ یہ وزارت کی طرف سے ازخود فیصلہ نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی ہدایت پر ہے۔ کمیٹی کے استفسار پر بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے ٹیرف کیسز زیر التواء نہیں ہیں۔

متعلقہ عنوان :