سعودی عرب سے تعاون بارے حکومتی پالیسی واضح نہیں‘ ترجیحات سے آگاہ کرے‘ اعتزاز احسن،سعودی عرب کے حوالے سے حکومت اپنی پالیسی پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے واضح کرے ۔مولانا فضل الرحمان ،جب تک یمن کے حوالے سے پورا خاکہ ایوان کے سامنے نہیں رکھا جائے گا درست فیصلہ نہیں کیا جاسکتا،شاہ محمود قریشی،پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب، اجلاس آج صبح گیارہ بجے دوبارہ شروع ہوگا

منگل 7 اپریل 2015 03:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔7 اپریل۔2015ء) سعودی عرب فوج بھیجنے یا نہ بھیجنے بارے حکومتی پالیسی واضح ہے نہ وزن رکھتی ہے۔ سعودی عرب سے کس قسم کا تعاون کریں گے ایوان کو بتانا پڑے گا۔ سعودی عرب ہم سب کیلئے مقدس جگہ اور ہم ان کے خیر خواہ ہیں۔ سعودی عرب کے دفاع کا ہر مسلمان میں جذبہ ہے صورتحال نازک ہے۔ حکومت ایوان کو اپنی ترجیحات سے آگاہ کرے۔

این اے 246 اور دیگر الیکشن کرانا چاہتی ہے تحریک انصاف کو خود اسمبلی لے کر آئی ہے اسے اس کا استقبال کرنا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار اپوزیشن لیڈر‘ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر اعتزازاحسن نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کیا۔ پیر کے روز یمن کی صورتحال پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ حکومت خود تحریک انصاف کو اسمبلی میں لے کر آئی ہے حکومت این اے 246 میں الیکشن کروانے اور دیگر الیکشن کروانا چاہتی ہے آپ کا لہجہ دھیمہ ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

شیریں ہونا چاہیے وزیر دفاع کو دیکھو پورس کے ہاتھی یاد آجاتے ہیں حکومت میں رہ کر حکومت کرنا نہیں آرہی تحریک انصاف کے ساتھ جو اتفاق رائے پیدا ہوا ہے حکومت خود اس کی نفی کررہی ہے۔ تحریک انصاف کا استقبال کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ کچھ لوگ اسمبلی میں آکر شور مچا رہے ہیں ان کا مسئلہ این اے 246 کا ہے۔ لائے خود کو التجا کرکے کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔

اب حکومت خود ان کو ایوان سے باہر نکالنا چاہتی ہے ۔ وزیر دفاع یمن کے اوپر بیان کوئی واضح اور وزن نہیں رکھتا سعودی عرب کے ساتھ کس قسم کا تعاون کریں گے ایوان کو بتانا پڑے گا۔ سعودی عرب کے علاقائی استحکام کو کیا خطرہ ہے یہ بھی نہیں بتایا‘ کیا فوج بھیجیں گے ‘ فضائی فوج بھیجیں گے یا زمینی یہ بھی بتانا پڑے گا۔ سعودی عرب کے بادشاہ نے جو فوج مانگی ہے اس پر بھی قوم کو اور ایوان کو نہیں بتایا وزیر دفاع خواجہ آصف حکومت کے پالیسی بیان کو واضح طور پر پیش کریں۔

انہوں نے کہا کہ دیگر مسلم ممالک کے علاقائی استحکام کو خطرہ ہوا تو تب بھی حکومت کا یہی موقف ہوگا۔ ہم سب سعودی عرب کے خیر خواہ ہیں مسلمانوں کیلئے مقدس جگہ ہے ۔ مسلمانوں میں جذبہ ہے سعودی عرب کے دفاع کا اور سعودی ریاست سعودی حکومت کے متعلق کیا پالیسی ہے۔ ہم جانتے ہیں وہاں 20 لاکھ پاکستانی وہاں کام کرتے ہین یہ بہت خطرناک صورتحال ہے۔

حکومت سے مطالبہ ہے کہ واضح طور پر ایوان کو بتایا جائے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں لوگ کہتے ہیں یہ مسلک کی جنگ ہے لیکن ہم یہ سمھجتے ہیں کہ یہ مسلک کی جنگ نہیں ہے 60 کے عشرے سے یمن میں خانہ جنگی چل رہی ہے شمالی اور جنوبی یمن کے ایک ہو جانے کے باوجود وہاں خانہ جنگی ہے اس وجہ سے وہاں القاعدہ نے اپنے قدم جمانا چاہتی شروع کردیا۔ سعودی عرب نے 62 ارب ڈالر 2013 ء میں دفاع پر خرچ کئے اور اب 80 ارب ڈالر خرچ کرے گی۔

سعودی عرب اقتصادی طو رپر مضبوط ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1973 ء مین عرب اسرائیل جنگ ہوئی تو چھ دن کے اندر متحدہ عرب افواج کی پسپائی ہوئی تھی۔ چار گنا زیادہ اسرائیل نے اپنے علاقے بڑھا دیئے تھے۔ عالم اسلام کو شکست ہورہی تھی شکست خوردہ تھے۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو نے 12 دن کے اندر چالیس ملکوں کا دورہ کیا ائیرپورت پر ملاقاتیں کیں‘ انہوں نے ایک نیا وژن دیا۔

انہوں نے سعودی عرب کو کہا کہ تیل کی طاقت کو استعمال کرو‘ وزیراعظم کو چاہیے تھاکہ بھٹو کی طرح مسلم ممالک کے دورے کرتے اور مسلمانوں کو اکٹھا کرتے لیکن وزیراعظم صرف ترکی گئے وہاں بات نہیں بنی ‘ او آئی سی کے ممبران سے رابطے کریں مسلم ممالک کے سفیروں کو بلائیں اور کوششیں کریں کہ جنگ بندی ہو‘ مسلمان مسلمان کو ذبح کررہا ہے اس نازک مرحلے پر صرف سیاستدان اور علماء کا کام نہیں ہم سب کو مشترکہ طور پر کام کرنا چاہیے۔

تمام اسلامی ممالک میں آگ لگی ہوئی ہے کشکول لے کر ہر جگہ پہنچے ہوئے ہیں۔ ہم بخشو بنے ہوئے ہیں ہر کام ہم سے کروایا جاتا ہے۔ جگن ناتھ سے لے کر رانا بھگوان داس تک سب نے ملک کی زیادہ خدمت کی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے کہ کوئی بیان اور پالیسی کی حمایت کروائی جائے اس سے پہلے ہمیں بتایا جائے کہ اپ کی کیا ترجیحات ہیں ہمیں بتایا جائے کہ فوج بھیجنی ہے یا نہیں سعودی عرب سے کیا بات ہوئی ہے ہمیں بتایا جائے سعودی عرب ایران گیس پائپ لائن کی مخالفت تو نہیں کرے گا۔

ادھرجمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اسمبلی سے مستعفی ہونے کے بعد آئین و قانون کے مطابق تحریک انصاف کا ایوان میں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ سول نافرمانی کا حکم دینے والے کا جب اللہ نے گھر آباد کیا تو گرم پانی کیلئے بل بھی ادا کردیا ، امریکہ اور مغرب کی پالیسیوں نے اسلامی دنیا پر جنگ مسلط کی ہے جو کہ ایشیا کی اقتصادی ترقی کو روکنے کیلئے اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کیلئے ہے ، عالم اسلام خون میں لت پت ہے اس لئے حکومت جو بھی فیصلہ کرے اس میں امن اور مصالحت کاکردار ادا کرے ، سعودی عرب کے حوالے سے حکومت اپنی پالیسی پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے واضح کرے ۔

پیر کے روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوسرے سیشن میں جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت یمن کے معاملے پر عالم اسلام میں جو بحران ابھرا ہے اس میں اسلامی دنیا کی پاکستان سے بھرپور توقعات ہیں لیکن اس انتہائی نازک موقع پر ایک نیا سوال بھی سامنے آیا ہے کہ مستعفی لوگ جو ایوان میں موجود ہیں اور آئین کا حصہ نہیں ہیں وہ آج کس طرح ایوان میں آئے ہیں یہ ایوان کیلئے قابل قبول نہیں ہے اگر اس معاملے کو شک و شبہ سے بالاتر کیاگیا تو پھر پارلیمنٹ کی کیا عزت رہ جاتی ہے کہ جنہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے جنگلے توڑے اسمبلیوں کو گالیاں دیں اور سپیکر قومی اسمبلی پر بھی باتیں کیں استعفی دینے کے بعد اسمبلیوں میں آنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہماری ایوان میں آتے ہوئے زندگی گزر گئی ہے ہم اتنے ان پڑھ نہیں ہیں کہ استعفے دینے کے بعد تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں موجود ہونا چاہیے سپیکر قومی اسمبلی کو واضح کہتا ہوں کہ اگر کسی مستعفی اراکین نے اس مقدس فورم پر تقریر کی تو جے یو آئی (ف) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے واک آؤٹ کرے گی ۔ عمران خان نے کہا کہ تحریک انصاف کی جانب سے سول نافرمانی کی تحریک چلائی گئی لیکن جب اللہ نے گھر آباد کیا تو گرم پانی کیلئے بل بھی ادا کرنے پڑ گئے اور سول نافرمانی کی تحریک کو ختم کردیا گیا ۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس وقت پورا عالم اسلام آگ کی لپیٹ میں ہے اعتزاز احسن کی تقریر پر اتفاق کرتا ہوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور مغرب کی پالیسیوں نے اسلامی دنیا پر جنگ مسلط کی ہے پہلا حربہ دہشتگردی جس میں مسلمانوں کو جنگ کا حصہ بنایا گیا اور اس حربے میں انہیں فتح حاصل ہوئی دوسرا حربہ اسلامی دنیا کو آپس میں لڑا دیا نائن الیون کے بعد امریکی صدر بش نے کہا کہ یہ صلیبی جنگ شروع ہوگئی پھر کہا گیا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ ہے جس سے ہم آج تک نہیں نکل پائے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کیا آج اسلامی دنیا میں اتنی طاقت ہے کہ وہ عقیدے یا طاقت کے طور پر مغرب کے ساتھ جنگ لڑ سکے دنیا میں جنگ کا آغاز صدر بش نے کیا اور انہوں نے الیکشن کے دوران کہا کہ خلاء میں ہتیھار بنائے جائینگے لیکن ہمیں اس پر سوچنا ہوگا کہ ہم اس جنگ کیلئے طاقت ور نہیں ہیں اس وقت یورپ کی جنگ مسلمانوں کو آپس میں لڑا رہی ہے ہمیں اس بات کو سمجھنا کہ ایشیا کی ترقی کو روکا جارہا ہے اور یہ اقتصادی جنگ صرف ایشیا کے ساتھ لڑی جارہی ہے اس وقت اسلامی دنیا کو کمزور کرنے کا ہدف اور حکمت عملی طے کی گئی ہے یہ جنگ شیعہ سنی نہیں تو پھر آج کیوں شیعوں کیوں زیاد سنی کا لقب دیا جارہا ہے افغانستان کے طالبان کیا سنی نہیں ہیں مگر طالبان کیخلاف کارروائی کو سنی کیخلاف کارروائی نہیں کہا گیا صدام کو پوری دنیا نے مارا کیا وہ سنی نہیں تھا مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں اس جنگ کے بعد ملک پر مرتب ہونے والے اثرات کو دیکھنا ہوگا انہوں نے کہا کہ ایران نے حوثی باغیوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہیں وزیراعظم نواز شریف نے ترکی اور ایران کی حکومت کو متحرک کیا ہے اور سعودی عرب سے بھی رابطے ہورہے ہیں تو یہ اچھا اقدام ہے ۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں جنگ سے اجتناب کرنا ہے اور امن کیلئے کردار ادا کرنا ہے حکومتوں کا کام ہے کہ وہ ایک فریق کے ساتھ کھڑے نہ ہوں لیکن ہم اس وقت بین الاقوامی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں ہم اس وقت فرنٹ لائن پر نہیں ہیں لیکن علماء کرام ایک صف میں ہیں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بتایا جائے کہ آخر یمن کے معاملے پر حکومت نے کون سی حدود تعین کی ہیں حرمین شریفین کی مدد کرنا جائز ہے لیکن اس کے بعد ملک پر مرتب ہونے والے اثرات کو بھی دیکھنا ہوگا اس وقت عالم اسلام خون میں لت پت ہے آج یہ آگ ہمارے گھر میں آگئی ہے تو کل یہ آگ پوری دنیا میں پھیل جائے گی اس لئے پاکستان کو امن اور مصالتی کا کردار ادا کرنا چاہیے حکومت جو بھی فیصلہ کرے اس میں پارلیمنٹ کو بھی اپنی پشت پر رکھے حکومت سعودی عرب کے معاملے پر قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے اپنی پالیسی وضع کرے ۔

جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ جب تک یمن کے حوالے سے پورا خاکہ ایوان کے سامنے نہیں رکھا جائے گا درست فیصلہ نہیں کیا جاسکتا،سعودی عرب کی حفاظت کیلئے پاکستان کا موقف واضح ہے اس وقت یمن میں جو ائر سٹرائکس ہورہی ہیں کیا اقوام متحدہ کی کوئی ریزولیشن ہے اگر نہیں ہے تو کس کو کیا تصور کیاجائے گا ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یہ وار کرائم تو نہیں ایوان کو بتانا ہوگا ، پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستانی کمیونٹی خیریت سے پاکستان واپس آگئی ہے ، چین کی حکومت کے بھی شکر گزار ہیں جس کی سپورٹ سے پاکستانی واپس آئے، یمن کے حوالے سے پارلیمنٹ کا سیشن منعقد کیا اس حساس فارن پالیسی ایشو پر ہمیں یکجا ہونا چاہیے ، انہوں نے کہا کہ وزیر دفاع نے اس حساس معاملے کی بجائے نجی مسئلہ ایوان میں اٹھایا اس معاملے کی اہمیت کا اندازہ کرنا ہوگا پاکستان میں اس حوالے سے تمام قوم کو ایک جگہ اکٹھنا کرنا ہوگا اس میں پاکستان کی بہتری ہے ، اس وقت مختلف آراء سامنے آرہی ہیں جس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں سعودی حکمرانوں کی جانب سے دعویٰ آرہا ہے کہ حکومت سعودی عرب کے ساتھ تعاون کا یقین دلایا ہے یہ صرف وزیر دفاع ہی بتا سکتے ہیں ،شاہ محمود نے کہا کہ حکومت نے کہا تھا کہ سعودی عرب فوج بھجوانے کے حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں گے حکومت کو ایوان کو یہ بتاناچاہیے کہ حقیقت کیا ہے اس مسئلے پر پاکستان کے رول میں شفافیت آنی چاہیے یمن میں قتل وغارت میں پاکستان پارٹی بننے جارہا ہے یا ہمارا رول امن کے لیے تو اس کی اپنی حکمت عملی ہے اس لئے یہ بات واضح ہونا چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ وزیر دفاع کی تقریر میں واضح نہیں کہ حکومت کیا کرنا چاہتی ہے اگر ہم نے کوئی رول ادا کرنا ہے تو کولیشن کا حصہ بننا ہے تو اس کے اندرونی اور بیرونی مسائل میں حکومت کو مکمل طور پر ان مسائل پر ایوان کو بریف کرنا چاہیے ۔ وزیر دفاع سعودی عرب سے ہوکر آئے تھے ایوان کو بتانا چاہیے کہ سعودی حکام سے کیا بات چیت ہوئی سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا مقدس مقامات بھی ہیں قوم یہ سب جانتی ہے سعودی حکومت کی پاکستان سے کیا توقعات ہیں ۔

وزیر دفاع کے مطابق سعودی حکومت نے ائر کرافٹ ، نیوی اور فوجی مدد طلب کی ہے اگر ہم ان کی درخواست کو قبول کرتے ہیں تو اس کی کیا شرائط ہونگی ۔ وزیر دفاع نے بتایا ہے کہ ایک لاکھ بہتر ہزار فوجی دہشتگردی کی جنگ میں شریک ہیں ہندوستان کے ساتھ بھی تعلقات کچھ خاص نہیں ہیں ہمارے بارڈر پر بھارتی جارحیت جاری ہے بلوچستان اور کراچی کے حالات بھی حکومت کے سامنے ہیں جب تک پورا خاکہ ایوان کے سامنے نہیں رکھا جائے گا درست فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ۔

سعودی عرب جانے والے وفد میں مشیر خارجہ بھی شامل تھے ان کو چاہیے کہ وہ ایوان کو بتائیں کہ یمن کی کیا صورتحال ہے یمن میں انارکی ہے یا سول وار دفتر خارجہ کو بتانا چاہیے ۔ ۔ انہوں نے کہا کہ عرب لیگ کے اجلاس میں واضح حکمت عملی کا اعلان ہوا یہ لڑائی اور تناؤ جو برادر اسلامی ممالک کے درمیان ہے پاکستان او آئی سی کا اہم ملک ہے یمن او آئی سی کا حصہ ہے او آئی سی کا ایک کردار ہے اس کو استعمال کیا جائے جو مسلمان ملک کے درمیان تناؤ ہیں میں اضافہ ہورہا ہے یہ جنگ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے آج جو یمن میں ہورہا ہے اور ملٹری ایکشن ہے کیا اس مسئلے کا حل ہے ۔

شاہ محمود نے کہا کہ میرے خیال میں یمن میں صرف اقدار کی جنگ ہے یمن میں جاری جنگ بہت پرانی ہے شمالی یمن اور جنوبی یمن کو ملحق ہوئے ابھی اتنا وقت نہیں ہوا کیا حکومت یمن کی زمینی صورتحال پر بھی غور کررہی ہے جس تیزی کے ساتھ صورتحال بگڑ رہی ہے جو عناصر کو جنگ کو ہوا دیتے رہے ان کو اپنے مقاصد پورا کرنے کا موقع مل رہا ہے غیر ملکی ایجنسیاں کی رپورٹ ہے کہ القاعدہ یمن میں اپنے پاؤں جما رہی ہے اس کوبھی مدنظر رکھنا ہوگا سابق صدر صالح کو رخصت کیا گیا تو کیا عوامل تھے کیا حالات تھے جس کی وجہ سے ملک چھوڑ کرامریکہ جانا پڑا کیا عوامل تھے کہ صدر منور حادی کو اقتدارمنتقل کیا گیا اس وقت کیا سیاسی ایگریمنٹ تھے جنوبی اور شمالی یمن کو متحد کرنے کے لیے کیا اصول واضح ہوئے نارتھ یمن اپنی آزادی اور خود مختاری کی بات کررہا تھا یمن کے اندر معاشی اور سیاسی صورتحال کوبھی مدنظر رکھنا ہوگا اگر اس کو نہ سمجھا گیا تو بھیانک نتائج برآمد ہونگے جب فضائی کارروائی کا آغاز ہویا تو کیا پاکستان سے مشاورت ہوئی ایوان کو بتانا ہوگا اعتزاز اور مولانا فضل الرحمن کی بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ یہ شیعہ سنی لڑائی نہیں ہے اگر یہ معاملات آگے بڑھتے گئے تو یہ مذہبی مفادات کی شکل اختیار کرسکتا ہے اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کو انتہائی محتاط رویہ اختیار کرنا ہوگا جلدی کرن کی بجائے قومی اتفاق رائے قائم کرنا ہوگا حکومت ایک طرف اور دوسرا عنصر دورسری طرف نظر آرہی ہے پاکستان کی رائے عامہ کی امیدوں کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا حکومت سروے کروالے کہ عام پاکستان کیا سوچ رہا ہے مولانا نے کہا کہ آج ایران کے پہلو میں کیوں جارہے ہیں کیا حکومت نہیں جانتی کہ تہران میں پاکستانی سفیر کو بلا کر اپنی معاملات نہیں بتاتے ایران میں پاکستانی سفیر پاکستان میں آکر بتانا چاہیے ایران ہمارا ہمسائیہ ملک ہے ہمارے بارڈر محفوظ نہیں تیسرا ہمسائیہ بھی اگر پاکستان کے ساتھ ناراض ہوتا ہے تو ہمیں اس چیز کو ذہن میں رکھنا ہوگا ہماری جماعت کے اور اپوزیشن کے خیالات ایک جیسے ہیں بے شک پاکستان او جی سی سی ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ کے حوالے سے پاکستانی قوم کے جذبات سب کے سامنے ہیں پاکستان اس مسئلے پر یونائیٹڈ نیشن کے چارٹر پر غور کرنا ہوگا سعودی عرب اور یمن کے درمیان امن کے لیے کام کرنا ہوگا لیکن ہمیں اپنے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا حکومت کو سعودب عرب کے ساتھ مل کر امن کے لیے کام کرنا ہوگا اگر یمن میں حالات اسی طرح رہے تو اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑینگے حکومت وقت کو تجویز ہے کہ ڈپلومیسی اختیار کرے جنگ سے اجتناب کرنا ہوگا پاکستان انٹرنیشنل کمیونٹی کے ساتھ امن کے لیے کام کرنا ہوگا اس وقت کی ضرورت ہے کہ اس مسئلے سے لاتعلق رہیں اور صرف امن کے لیے کردار ادا کریں پاکستان تحریک انصاف ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گی انتہائی اہم اجلاس کو جملہ بازی میں وقت ضائع نہ کئے جائے اس وقت ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایوان میں آئے پیپلز پارٹی کی شروع سے کوشش تھی کے معاملات کو مذاکرات سے حل کرے ہم خود یہی چاہتے ہیں اس لئے اعتزاز احسن کے پاس گئے تاکہ جوڈیشل کمیشن پر کوئی فیصلہ کیاجاسکے خورشید شاہ کا رول بھی انتہائی مثبت رہاہے ہم آج سمجھتے ہیں کہ 2013ء کے الیکشن پر تشویش ہے دھرنے پر تھے پھر کہا گیا ایوان میں آئیں ایوان میں آئے تو ہمیں مجبور کیاجارہا ہے دیوار سے لگایا جارہا ہے حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے جوڈیشل کمیشن پر حتمی فیصلہ ہوا ہمارا موقف تبدیل نہیں ہوا حکمت عملی تبدیل ہوئی ہے دھرنے کے دوران پشاور کا واقعہ ہوا تو حکومت نے بلایا تو پشاور پہنچے نیشنل ایکشن پلان میں ہم نے اپنا کردار ادا کیا لیکن ملکی مفاد میں تحریک انصاف اپنا رول ادا کرے گی ۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ اس وقت مشرق وسطیٰ اور یمن کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے ماضی سے سبق سیکھا ہے تو اس م عاملے میں انتہائی غیر جانبدار رہنا چاہیے اس وقت پوری دنیا کی صورتحال نازک ہے کہیں دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف نہ چلی جائے حکومت وقت سے گزارش ہے کہ کسی بھی ملک کی حمایت کرنے سے پہلے آج تک ہونے والی پانچ جنگوں کے کیا نتائج نکلے ہیں اگر اس پرائی جنگ میں ہم کودے تو ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا ہمیں اس بات کو سوچنا چاہیے یہ یمن کا داخلی مسئلہ ہے صرف طاقت کے لئے جنگ لڑی جارہی ہے ہمیں سعودی عرب اور یمن کی خود مختاری عزیز ہے ہمیں آنکھ بند کرکے یمن کی جنگ میں نہیں جانا چاہیے ہم کسی کی جنگ میں شامل نہیں ہوسکتے ہمیں اس جنگ کی نفی کرنی چاہیے سابقہ ادوار کی جنگوں کے نتائج کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے آج ہم نے یہ بیج بویا کل ہمیں بیک فائر ملے گا مغربی اور مشرقی سرحدیں پہلے سے غیر محفوظ ہیں ایران کے تحفظات کو سامنے رکھنا چاہیے خانہ کعبہ کی حفاظت کیلئے چند گھنٹوں کے نوٹس پر پہنچ سکتے ہیں تمام لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں اس جنگ میں ثالث نہیں بننا چاہیے انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایران کے تحفظات کو دور کرنا چاہیے صرف عضب کا ری ایکشن ہمیں کراچی میں ملتا ہے امریکہ نہیں چاہتا کہ عرب کا یہ خطہ پرامن رے اور آپ فوج یمن بھیج کراس خطے کوبھی غیر امن ہوجائے گا قومی لائحہ عمل بنایا جائے صرف دیکھاوے کیلئے مشترکہ اجلاس نہ بلایا جائے ۔

بعد میں اجلاس آج منگل کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کیا گیا