ہماری خارجہ پالیسی 37 سال سے ہمیں نقصان پہنچا رہی ہے ، اب بھی ہمیں مقدس مقامات کے دفاع کے نام پر اکٹھاکیا جا رہا ہے؛اپوزیشن جماعتوں کا دو ٹوک مئوقف ،سعودی عرب میں مقدس مقامات کو خطرہ نہیں صرف بادشاہت کو خطرہ ہے،یمن جنگ پاکستان صرف ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے،خلیجی ممالک میں لوگ جمہوریت کیلئے کھڑے ہو رہے ہیں ، اگر مقدس مقامات کی بات ہے تو فلسطین کا مسئلہ حل ہونا چاہئے قبلہ اول اسرائیل کے قبضے میں اس کے لئے قومی امداد بھیجی جائے، خود مختار یمن پر خود مختار سعودی عرب نے حملہ کیا اور انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر دیں ؛پیپلز پارٹی،تحریکِ انصاف،مسلم لیگ فنگشنل، پختونخواہ ملی پارٹی،ایم کو ایم ، عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب

جمعرات 9 اپریل 2015 04:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9 اپریل۔2015ء)سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے یمن تنازے پر بحث کے دوران دوٹوک مئوقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب مسلمانوں کیلئے نہایت اہم مقام رکھتاہے اگر سعودی عرب کی خودمختاری خطرے میں ہے تو پاکستان کو مدد کرنی چاہئے لیکن حکومت کو جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیئے ، پاکستان صرف ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے ، ہماری خارجہ پالیسی 37 سال سے ہمیں نقصان پہنچا رہی ہے ، اب بھی ہمیں مقدس مقامات کے دفاع کے نام پر اکٹھاکیا جا رہا ہے، یمن ،کویت،امان،قطر،سعودی عرب میں لوگ جمہوریت کے لئے کھڑے ہو رہے ہیں ، اگر مقدس مقامات کی بات ہے تو فلسطین کا مسئلہ حل ہونا چاہئے قبلہ اول اسرائیل کے قبضے میں اس کے لئے قومی امداد بھیجی جائے لیکن فلسطین کے لئے کوئی بھی آواز نہیں اٹھاتا ، سعودی عرب میں مقدس مقامات کو خطرہ نہیں صرف بادشاہت کو خطرہ ہے،یمن میں صرف آمریت کی وجہ سے وہاں پر انتشار پھیلا ہے ، ایک خود مختار یمن پر ایک خود مختار سعودی عرب نے حملہ کیا اور انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر دیں اور پھر پاکستان سے فوجی امداد مانگ رہے ہیں سعودی عرب کے پاس پاکستان سے زیادہ فوجی قوت ہے اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بھی سعودی عرب پاکستان سے زیادہ بہتر ہے۔

(جاری ہے)

بدھ کے روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یمن کی صورت حال پر بحث کرتے ہوئے سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ حکومت اس بات پر مبارکباد کی مستحق ہے کہ انہوں نے یمن کی صورت حال پر مشترکہ اجلاس بلایا اور عوام کی رائے جانی ِاس وقت خارجہ پالیسی نہایت اہمیت کی حامل ہے اس موقع پر خارجہ پالیسی کو مزید بہتر بنانا ہو گا۔ سعودی عرب مسلمانوں کیلئے نہایت اہم مقام رکھتاہے اگر سعودی عرب کی خودمختاری خطرے میں ہے تو پاکستان کو مدد کرنی چاہئے لیکن حکومت کو جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیئے ۔

یہ جنگ ہماری نہین یہ ان کی اپنی جنگ ہے ان کو خود حل کرنا چاہئے ۔ یہ جنگ انہیں سیاسی طور پر حل کرنی چاہئے پاکستان ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے پاکستان کو عرب لیگ کے ساتھ مل کر جنگ بندی کے لئے کوششیں کرنی چاہئے ۔ پاکستان دنیا بھر میں اہمیت کا حامل ملک ہے اور کسی بھی مسئلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے یمن کے اندر عبوری حکومت قائم کر کے بھی مسائل کا حل ہوسکتا ہے جس کے بعد وہاں پر اقوام متحدہ الیکشن کروائے۔

دنیا جانتی ہے عرب کے اندر تبدیلی آ رہی ہے جس میں مصر کی تحریک قابل ذکر ہے ہمیں ایران کا انقلاب بھی نہیں بھولنا چاہئے دنیا اس وقت تبدیلی کی خواہش رکھتی ہے ڈکٹیٹر شپ کہیں بھی کوئی بھی قبول نہیں کرتا ۔ یمن میں ہر صورت جنگ بندی ہونی چاہئے ۔ اس موقع پر پختونخواہ ملی پارٹی کے سینیٹر عثمان خان قادر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ دنیا بدل رہی ہے بہت سارے ایسے ملک ہیں جو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے سمیت پاکستان کے جو بدلنے کی کوشش نہیں کر رہا۔

خلیجی ممالک میں شخصی حکومتیں قائم ہیں جن کو مضبوط کرنے کے لئے پاکستان کی خارجہ پالیسی مرتب کی جا رہی ہے جو کہ 37 سال سے فوجی چلا رہے ہیں ہماری خارجہ پالیسی 37 سال سے ہمیں نقصان پہنچا رہی ہے ، اب بھی ہمیں مقدس مقامات کے دفاع کے نام پر اکٹھاکیا جا رہا ہے۔ یمن ، کویت ، امان ، قطر ، سعودی عرب میں لوگ جمہوریت کے لئے اٹھ کھڑے ہو رہے ہیں اگر مقدس مقامات کی بات ہے تو فلسطین کا مسئلہ حل ہونا چاہئے قبلہ اول اسرائیل کے قبضے میں اس کے لئے قومی امداد بھیجی جائے لیکن فلسطین کے لئے کوئی بھی آواز نہیں اٹھاتا ۔

انہوں نے کہا کہ اصول کو اصول کی طرح رہنا چاہئے سعودی عرب میں مقدس مقامات کو خطرہ نہیں صرف بادشاہت کو خطرہ ہے ۔ اراکین مقدس مقام کا مسئلہ ایسے پیش کر رہے ہیں جس سے پوری دنیا میں یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ پاکستان کرائے کا ملک ہے اور کسی بھی مسئلہ کے لئے کرایہ دے کر خدمات لے سکتے ہیں ہم اپنے ملک کے حالات کنٹرول نہیں کر سکتے ہمیں اپنے ملک میں توجہ دینا چاہئے ہمارا وطن چار حصوں میں تقسیم ہے سوائے پنجاب کے کسی صوبے کو حقوق نہیں مل رہے ۔

خارجہ پالیسی اور دیگر مسائل پر ہمیں شامل کیا جائے اگر ایسے ہی نظرانداز کرتے رہیں تو لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا ۔ تحریک انصاف کی شیرین مزاری نے کہا کہ یہ سعودی عرب کی جنگ نہیں یمن کی جنگ ہے قوم کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ اس جنگ میں حصہ لینا چاہئے یا نہیں ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ تمام مسائل پرامن طریقے سے حل ہو جائیں ۔ تحریک انصاف کا موقف واضح ہے ۔

ہمارے وزیر دفاع جوڈیشل کمیشن کی وجہ سے خوف کا شکار ہیں وہ سیکیورٹی پر بات نہیں کرتے امریکہ کا چارٹر کسی بھی ملک پر حملہ کرنے کا نہیں کہتا یہ امریکہ کی ایک سازش ہے جو یو این کے قوانین کو بائی پاس کر رہا ہے ۔ پاکستان کو ڈپلومیسی کے تحت یمن کا مسئلہ حل کرنا چاہئے ترکی اور ایران نے بھی کہہ دیا ہے کہ تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں یمن میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے وہاں یو این کے ذریعے امن قائم کرنا چاہئے ہمیں اس بات کی گارنٹی ملنی چاہئے کہ یمن کی صورت حال کے بعد پاکستا ن کے اندر کوئی بھی مسئلہ پیدا نہیں ہو گا ۔

پارلیمنٹ کو واضح حقائق سے آگاہ نہیں کیا جا رہا تو مشترکہ اجلاس کیوں بلایا گیا ۔ وزیر دفاع سیکیورٹی پر بات کرنے کے بجائے سیاسی پوائنٹ سکورننگ کر رہے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ یمن کی صورت حال پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا اچھی بات ہے لیکن حکومت اپنی خارجہ پالیسی پر واضح بیان دے اس سے قبل عرب میں امن اور سکون تھا اس سے پہلے القاعدہ آئی ایس آئی ایس ، اور کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں تھی صرف ڈکٹیٹر شپ کی وجہ سے وہاں پر انتشار پھیلا ہے ۔

ایک خود مختار یمن پر ایک خود مختار سعودی عرب نے حملہ کیا اور انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر دیں اور پھر پاکستان سے فوجی امداد مانگ رہے ہیں سعودی عرب کے پاس پاکستان سے زیادہ فوجی قوت ہے اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بھی سعودی عرب پاکستان سے زیادہ اچھا ہے اگر حکومت کہتی ہے کہ سعودی عرب کی خود مختاری کو کوئی خطر نہیں تو سعودی عرب پاکستان سے فوج کیوں مانگ رہا ہے۔

ہمیں اس معاملے پر واضح طور پر آگاہ ہونا چاہئے کہ یہ جنگ کس مسئلہ کے تحت لڑی جا رہی ہے اور یہ بھی واضح ہونا چاہیئے کہ یمن کی جنگ میں پاکستان پر کوئی اثر نہ پڑھے گا۔ہمیں امن کے لئے کوشش کرنی چاہئے ، ہمیں سعودی عرب کے ساتھ ساتھ سب ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں اور ہر وقت ثالث کا کردار ادا کرنا چاہئے ۔افتخار عظیم نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو یمن بحران میں مثبت کردار ادا رکرنے کے لئے پاکستان کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے ۔

چائنہ ، ایران ، ترکی کے ساتھ مل کر یمن میں قیام امن کے لئے کوشش کی جائے ۔ ایشیائی ممالک کے ساتھ بھی یمن کے حوالے سے بات کر کے موجودہ حالات کے مطابق اس صورت حال میں مسلم امہ کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھیں ۔مسلم لیگ ( ن ) کے سینیٹر جنرل ( ر ) عبدالقیوم خان نے بحثمیں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ بہترین فورم ہے یہاں پر عوام اور ملکی قوانین بنتے ہیں اس وقت پاکستان بین الاقوامی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے یمن کی صورت حال کے متعلق فیصلہ کرنا ہو گا سعودی عرب کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن وہاں پر یہ کچھ ایسے علاقے جہاں پر خطرہ موجود ہے ان کا 700 پر محیط لینڈ بارڈر ہے ان کو بیرونی خطرات لاحق ہیں جن میں داعش سرفہرست ہیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو ان کی مدد کرنی ہو گی یمن کی صورت حال پر عرب سپرنگ کے لئے کھڑی ہے اس میں اگر کوئی ملوث ہے تو یہ خطرناک بات ہے یمن کا مسئلہ قومی نہین سیاسی مسئلہ ہے یمن پر او آئی سی کے اجلاس میں فوراً سیز فائر کا مطالبہ کیا جائے اور قیام امن کے لئے تمام امت مسلمہ ماملک اپنا کردار ادا کریں ۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ سعودی عرب ہمارے بھائی ہیں اور پاکستان سے مدد مانگی تو ان کی مدد کرنی چاہئے او آئی سی کو بھول جائے اس کا کوئی وجود نہیں ہے یہ انگریزی والا او آئی سی ہے طالبان جو کچھ کر رہے ہیں وہ 70 کی دہائی کی غلطی کی وجہ ہے کہ دوسروں کی جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے ہوا ہے جس وقت ہمارے لوگ مر رہے تھے تو کچوھ لوگ دھرنے کرنے میں مصروف تھے اس وقت پاک فوج کے 2 لاکھ جوان دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہے ہیں ۔

ملکی حالات کی وجہ سے اے این پی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ فوج کو نہیں بھیجنا چاہئے حکومت سے بھی مطالبہ ہے کہ پاکستان یمن میں قیام امن کے لئے ثالث کا کردار ادا کریں ۔ عمران نیازی واپس اسمبلی میں آئے تو ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن نیازی اپنی زبان لیڈر کی طرح استعمال کریں ۔ یمن کا معاملہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صرف وزیر دفاع کا معاملہ نہیں ہے بلکہ وزیر خارجہ کا بھی ہے جس میں ایک دن بھی مشیر خارجہ نظر نہیں آئے اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کتنی سنجیدہ ہے ۔

وزیر اعظم نے کاہ کہ کچھ چیزیں یہاں پر نہیں بتایا جا سکتا تو پھر مشترکہ اجلاس بلانے کی ضرورت نہیں تھی یہ پارلیمنٹیرینز کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے ان کیمرہ اجلاس بلا کر لیڈر شپ کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے سعودی عرب کو اگر خطرہ ہو تو ہم ان کی مدد ضرور کریں گے کیونکہ وہاں پر مقدس مقامات ہیں جس کے لئے پوری امت مسلمہ سر کٹانے کے لئے تیار ہیں ۔

اگر ( ن ) لیگ بند کمرے میں اپنی پارٹی قیادت کے ساتھ مل کر فیصلہ کرنا ہے تو پھر مشترکہ اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی وزیر اعظم میاں نواز شریف پارلیمنٹ کو یمن کی صورت حال سے آگاہ کریں کہ کیا فیصلہ کرنا ہے یمن کی لڑائی ایران ، سعودی عرب کی لڑائی کا حصہ ہے یمن میں شیعہ ، سنی لڑائی کا رنگ دیا جا رہا ہے ان سب معاملات پر ایران کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے کیونکہ پاک فوج جائے یا نہ جائے یہ کون کہہ رہاہے ان سب چیزوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔

سعودی عرب حکومت کہتی ہے کہ پاکستان ہماری مدد کریں گے ۔ پارلیمنٹ کو کچھ پتہ نہیں کہ یمن کی کیا صورت حال ہے اور حکومت کی کیا پالیسی ہے ہمیں کچھ پتہ نہیں ہے تو کس طرح رہمنائی کریں کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں ہے یہ تمام چیزیں واضح ہونی چاہئے اس کے لئے ان کیمرہ اجلاس بلایا جائے اگر نہیں بتانا تو پھر کوئی قرار داد کی ضرورت نہیں اپنے فیصلے حکومت خود کریں ۔ اجلاس جمعرات کی شام چار بجے تک ملتوی کر دیا گیا ۔