سپریم کورٹ نے اردو کوسرکاری و دفتری زبان بنانے کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کی تفصیلا ت طلب کر لیں ،حکومت آئین کی پاسداری نہیں کر رہی27, سال گزرگئے آج تک وفاقی حکومت نے اردو کو سرکاری و دفتری زبان بنانے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے،جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریما رکس

ہفتہ 11 اپریل 2015 04:59

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔11 اپریل۔2015ء) سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے قائمقام چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جمعہ کے روز اردو کو قومی‘ سرکاری و دفتری زبان بنانے کے لئے دائر کردہ کیس کی سماعت کرتے ہوئے سیکرٹری کیبنٹڈویژن سے ایک ہفتہ کے اندر اردو کو سرکاری و دفتری زبان بنانے کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کی تفصیلا ت اور تاخیر کرنے پر ذمہ داروں کے نام بھی طلب کر لئے ہیں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ کیا آج تک اردو کو سرکاری و دفتری زبان بنانے کے لئے کیبنٹ کا اجلاس ہوا ہے۔ کیا معاملہ کابینہ میں اٹھایا گیا ہے۔ لگتا ہے حکومت آئین و قانون پر عملدرآمد نہیں کر رہی۔ سماعت کے دوران درخواست گزار ایڈووکیٹ ایم کوکب اقبال پیش ہوئے۔

(جاری ہے)

ابتدائی سماعت کے دوران انہوں نے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 251 کے مطابق پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور اس کو دفتری اور سرکاری زبان بنانے کے لئے پندرہ سال کے اندر تمام ضروری اقدامات کرنا تھے لیکن 1988 تک پندرہ سال کاعرصہ مکمل ہو گیا لیکن اس کے بعد 27 سال گزرگئے اور آج تک وفاقی حکومت نے اردو کو سرکاری و دفتری زبان بنانے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے۔

سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے وفاق کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا اس حوالے سے حکومت نے کیبنٹ کا کوئی اجلاس آج تک بلایا ہے۔ عدالت نے وفاق کے وکیل کو احکامات جاری کئے پندرہ منٹ کے اندر حکومت سے تمام تفصیل لے کر عدالت میں پیش کریں۔ 20 منٹ کے وقفہ کے بعد جب کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وفاق کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تک وزارت کی جانب سے کوئی رپورٹ نہیں مل سکی آئندہ سماعت پر عدالت میں اردو کو سرکاری و دفتری زبان بنانے کے حوالے سے ریکارڈ پیش کر دیا جائے گا۔

اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت آئین کی پاسداری نہیں کر رہی۔ جن عناصر کے خلاف حکومت نے کارروائی کرنا ہوتی ہے وہ بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت خود آئین کی پاسداری نہیں کر رہی بلکہ آئین خلاف ورزی کا ارتکاب کر رہی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے تو صاحب اقتدار لوگوں کے خلاف کیوں نہیں ہو سکتی۔

درخواست گزار نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے مزید بتایا کہ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور پاکستان بنانے میں بھی عام غریب لوگوں نے جانیں بھی قربان کی اور اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی زیادہ تر آبادی مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے اور وہ اعلیٰ تعلیمی امتحانات میں اس بناء پر حصہ نہیں لے سکتے کہ ان کی انگلش کمزور ہوتی ہے کیونکہ ان کو بیکن ہاؤس و دیگر بڑے اہم تعلیمی اداروں میں پڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔

اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ کے دلائل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے میں طبقاتی و لسانی تفریق پیدا ہو رہی ہے۔ آئین کا اطلاق نہیں ہو گا کوئی بھی سرکار کو یہ کہہ سکتا ہے کہ حکومت خود آئین کی پاسداری نہیں کر رہی ہم کیوں کریں۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے سرکاری وکیل کو احکامات جاری کئے اردو کو سرکاری و دفتری زبان بنانے کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کیبنٹ ڈویژن سے لے کر عدالت میں تحریری طور پر پیش کئے جائیں اور عدالت نے اردو کو سرکاری و دفتری زبان بنانے کے حوالے سے تاخیر کے ذمہ داران کے نام بھی طلب کر لئے ہیں۔ کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لئے ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت 20 تاریخ کو شروع ہونے والے ہفتہ میں مقرر کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔

متعلقہ عنوان :