ہڑتالیں ہوں یا ججوں کو جوتے مارے جائیں، خواتین ججوں کی تذلیل کیجائے یا تالہ بندیاں ، عدلیہ انصاف کی فراہمی میں پیچھے نہیں رہے گی،جسٹس میاں ثاقب نثار ، ہم نے انصاف دینے کی قسم کھائی ہے،قائم مقام چیف جسٹس کا سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام کانفرنس سے خطاب

اتوار 17 جنوری 2016 03:56

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 17جنوری۔2016ء)سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام عدلیہ کو درپیش چیلنجز کے موضوع پرمنعقدہ ایک روزہ کانفرنس میں جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ، سمیت سینئر وکلاء اور بار کے عہدیداروں نے بھی خطاب کیا. جسٹس میاں ثاقب نثار نے تنبیہ کی کہ سول جج کی توہین پوری عدلیہ کی توہین تصور ہوگی، بارز ایسوسی ایشنز ایسے وکلاء کا احتساب کریں، وہ لوگ جو عدلیہ کی تذلیل پر اترتے ہیں وہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہیں، ادارے کو قائم دائم رکھنے کیلئے ہر اقدام اٹھائیں گے، جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ بہت جلد پاکستان کو ایک متوازن عدلیہ دیں گے، ہم سلطان کے قاضی نہیں ہیں، قانون ہمیں اجازت نہیں دیتا کہ اپنی مرضی سے فیصلے کریں، ہم نئی نسل کو اچھا دے کر جائیں گے یا پھر اچھا چھوڑکر جائیں گے، انہوں نے کہا کہ جب تک ہم اپنے گھر سے احتساب شروع نہیں کریں گے دوسروں کا احتساب کیسے کر سکتے ہیں، نااہل، جانبدار اور کرپٹ عدلیہ کا جج نہیں بن سکتا، دنیا میں قانون کی بالادستی پر قائم رہنے والی قومیں اور ادارے ہی ترقی کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام میں سب سے اہم عہدہ جج ہے، اس کی تقرری کا طریقہ کار شفاف ہونا چاہیے، سپریم کورٹ سے لے کر نچلی سطح تک ججوں کی تقرری کا معیار سخت رکھنا پڑے گا تاکہ کوئی انگلی نہ اٹھائے، سپریم کورٹ کے جج اور سول جج میں کوئی فرق نہیں بلکہ نچلی سطح پر ججوں پر زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے، جسٹس میاں ثاقب نثار نے مزید کہا کہ آج عوام کا عدلیہ پر اعتبار نہیں رہا، اس بے اعتباری کی ذمہ دار خود عدلیہ ہے، ہمیں یہ بے اعتباری ختم کرنی ہوگی، عدلیہ عوام کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے، جو جج بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کرتا وہ مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوتا ہے، ازخود نوٹسز کا اختیار چیف جسٹس پاکستان کا صوابدیدی اختیار نہیں ہونا چاہیے بلکہ سپریم کورٹ کے رولز میں مناسب ترمیم کر کے ایسا فورم قائم ہونا چاہیے جو تجویز کرے کس معاملے پر ازخود نوٹس لیا جائے، ایسا نہیں کہ رات کو خواب آئے اور صبح ازخود نوٹس لے لیا جائے.

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ میں نہیں مانتا کہ انیس سو ستر کے بعد کسی جج نے مس کنڈکٹ نہیں کیا، آخری فیصلہ انیس سو ستر میں ہی آیا تھا، جج پولیس والوں کی تنزلی تو کر دیتے ہیں مگر جب خود بنیادی حقوق کو تحفظ نہیں دیتے تو ان کا احتساب بھی ہونا چاہیئے. انہوں نے مزید کہا کہ جب عوام کو اپنے بنیادی حقوق کی آگاہی ملے گی تو وہ ایک طاقت بن جائیں گے جس کی مثال عدلیہ کی آزادی کی تحریک ہے مگر افسوس کہ ہم اس طاقت کو سنبھال نہیں پائے تبھی آج بہت سے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں.

ہائیکورٹ کے جج رٹ دائرہ اختیار میں بہت کچھ کر دیتے ہیں جس کی آئین اور قانون اجازت نہیں دیتا، گزشتہ دنوں سندھ ہائی کورٹ کے جج کا ایسا ہی ای فیصلہ دیکھ کر مجھے افسوس ہوا. سیمنار سے صدر سپریم کورٹ بار بیرسٹر سید علی ظفر، ممبر پاکستان بار کونسل اعظم نذیر تارڑ، احسن بھون سمیت نامور قانون دانوں اور آئینی ماہرین نے بھی خطاب کیا�

(جاری ہے)