این اے 125،سپریم کورٹ کا نادرا کو 3ماہ میں ووٹوں کی تصدیق کا حکم،اڑھائی پونے تین سال بعد انتخابی ریکارڈ کی کیا پوزیشن ہو گی،فارم 13 کا بھی جائزہ لینا پڑے گا،چیف جسٹس انور ظہیر جمالی،الیکشن ٹریبونل نے 7 پولنگ اسٹیشنز کی جانچ پڑتال کے بعد فیصلہ سنایا،احمد اویس، شناخت کرالیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں،وکیل سعد رفیق،ووٹوں کی تصدیق کی کوئی قانونی بنیاد نہیں، کچھ نہیں ملے گا،سعد رفیق،یہ معلوم نہ تھا کہ عوامی عدالت سے الیکشن جیتنے کے بعد قانونی عدالتوں سے انصاف کیلئے پونے تین سال چکر لگانا پڑیں گے اور فیصلہ نہیں ہو گا،سابق چیف جسٹس افتخار چودھری اب سیاستدان ہیں، اخلاقی طور پر سرکاری بلٹ پروف گاڑی نہیں رکھنی چاہئے،سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو

بدھ 27 جنوری 2016 09:55

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 27جنوری۔2016ء) سپریم کورٹ نے وفاقی وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق کے حلقے این اے 125 میں نادرا کو ووٹوں کی تصدیق کا حکم دے دیا ہے۔ چیف جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق کی انتخابی عذرداری کی سماعت کی۔تحریک انصاف کے امیدوارحامد خان کے وکیل احمد اویس نے موقف اختیارکیا کہ الیکشن ٹریبونل میں معاملے کو لے جایا گیا لیکن الیکشن ٹریبونل نے 265 پولنگ اسٹیشنز میں سے صرف 7 پولنگ اسٹیشنز کی جانچ پڑتال کے بعد فیصلہ سنایا۔

حلقے سے کامیاب ہونے والے امیدوارخواجہ سعد رفیق کے وکیل کا کہنا تھاکہ حلقے میں انگوٹھوں کی شناخت کرالیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپنے حکم میں قراردیا کہ صرف 7 پولنگ اسٹیشن کی بنیاد پر پورے حلقے میں پولنگ کا حکم نہیں دیا جاسکتا اس لئے تمام حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق کی جائے جس کے بعد ہی کوئی فیصلہ دیا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

عدالت نے نادرا کو حکم دیا کہ تمام کاوٴنٹرفائلزپرانگوٹھوں کی تصدیق کا عمل مکمل کرتے ہوئے 3 ماہ میں رپورٹ پیش کی جائے امید ہے کہ مقررہ مدت میں تصدیق کا عمل مکمل کرلیا جائے گا جب کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ انگوٹھوں کی تصدیق پرآنے والا خرچ حامد خان برداشت کریں گے ۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے دوران سماعت سوال اٹھایا ہے کہ تقریباً اڑھائی پونے تین سال بعد انتخابی ریکارڈ کی کیا پوزیشن ہو گی جبکہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا ہے کہ خواجہ سعد رفیق تو اسمبلی میں ہیں ان کو اس سے کیا نقصان ہے کہ ووٹوں کی تصدیق کرائی جائے ۔

نادرا کے ذریعے تین سے چار معاملات پر تصدیق کرانا ضروری ہے ۔ حامد خان کے وکیل احمد اویس نے کہا کہ این اے 125 میں فارم 14 گم ہیں ۔11 پولنگ سٹیشنوں پر 100 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ان کو کوئی تو قانونی بنیاد لینا چاہئے تھی جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ فارم 14 اگر مسنگ ہیں تو پھر معاملات تو دیکھنا ہوں گے اس پر ووٹس لکھے ہوتے ہیں اگر وہ غلط لکھے ہیں تو ان کا دوبارہ جائزہ لیا سکتا ہے خواجہ حارث نے کہاکہ انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق جہاں سے مرضی چاہیں کرالیں یہ کوئی ایشو نہیں ہے ہم تو ڈیٹا کے حوالے سے بات کرنا چاہتے ہیں ٹریبونل نے صرف اس پر فیصلہ دیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فارم 13 کا بھی جائزہ لینا پڑے گا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ باقی نکات پر دلائل پر محفوظ کر رہے ہیں عدالت نے خواجہ سعد رفیق کے حلقے میں انگوٹھوں کے نشانات کے لئے نادرا کو معاملہ بجھوا دیا ہے اور اسے ہدایت کی ہے کہ وہ ان انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کرے ۔ کاؤنٹر فائلز کا بھی جائزہ لیا جائے ۔ فریقین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے حلقہ این اے 125 کا تمام تر ڈیٹا نادرا کو ارسال کیا جائے اور تصدیق کے بعد تین مہینے میں پراسس کر کے رپورٹ دی جائے ۔

ادھروفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ووٹوں کی تصدیق کے حوالے سے ہمارا موقف یہ ہے کہ اس تصدیق کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے اور اس سے کچھ نہیں ملے گا یہ معلوم نہ تھا کہ عوام کی عدالت سے الیکشں جیتنے کے بعد قانونی عدالتوں سے انصاف کے لئے پونے تین سال چکر لگانا پڑیں گے اور فیصلہ نہیں ہو گا ہم ووٹوں کی تصدیق سمیت تمام معاملات کے لئے تیار تھے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ ذاتی نہیں پارٹی کا تھا ۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اب سیاستدان ہیں اس لئے انہیں اخلاقی اور قانوی طور پر سرکاری بلٹ پروف گاڑی نہیں رکھنی چاہئے اور واپس کر دینی چاہئے ۔ اگر وہ بطور چیف جسٹس 4 حلقے کھول دیتے تو آج وسائل اور وقت کا اتنا ضیاع نہ ہوتا ۔منگل کے روز سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق یہ کہا گیا ہے کہ این اے 125 کے دستیاب کاؤنٹر فائلز کو نادرا تین ماہ میں چیک کر کے رپورٹ دیں تصدیق کی تجویز خود عدالت نے دی تھی جس کو خواجہ حارث نے تسلیم کیا ہمارا موقف یہ ہے کہ اس کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے اور اس سے کچھ نہیں ملے گا دوبارہ گنتی پر بھی پر اعتراض نہیں ہے یہ مجھے معلوم نہ تھا کہ عوام کی عدالت سے الیکشن جیتنے کے بعد پونے تین سال عدالتوں کے چکر لگانے پڑیں گے اور فیصلہ نہیں ہو گا زیادہ تر التواء حامد خان لیتے رہے ہیں دعا کریں کہ تین ماہ میں اس کا فیصلہ ہو جائے وکیل نے اس پر اعتراض نہیں کیا تکرار کیا۔

چیف جسٹس نے آبزرویشن دی سوال اٹھایا کہ تقریباً اڑھائی پونے تین سال بعد اب ریکارڈ کی پوزیشن کیا ہو تی جو باتیں واضح ہیں ثابت ہو چکی ہے مقناطیسی سیاہی معیاری نہ تھی کئی جگہ سپلائی نہیں کی گئی ۔ تین طرح کی سیاہی سے پتہ ہی نہ چل سکتا ۔ انگوٹھوں کے نشانات کیا تین سال بعد تصدیق ہو جائے گی ۔مسکراہٹ بارے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کی مسکراہٹ وقت ملنے کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ میری جماعت کا فیصلہ تھا عدالت میں جانے کا ۔ رپورٹ آئے گی اس پر جو فیصلہ آئے گا اس کا احترام کریں گے ۔ایک سوال کے جواب میں کہا کہ رپورٹ آئے گی شفافیت کا جائزہ لے کر اگلے اقدام کا فیصلہ کریں گے ۔