لیاری گینگ وار کااہم کردار عزیر بلوچ کراچی سے گرفتار،سندھ رینجرز نے ملزم کو دبئی سے واپسی پر کراچی میں داخل ہوتے ہوئے حراست میں لیا، عذیر جان بلوچ کو 90روز کے لیے رینجرز کی تحویل میں دیدیا گیا ،ڈی جی رینجرز نے عزیر بلوچ کی گرفتاری پر مجھے اعتماد میں لیا،ملزم کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے، قائم علی شاہ

اتوار 31 جنوری 2016 10:43

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 31جنوری۔2016ء)انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے منتظم جج نے لیاری گینگ وار کے سربراہ عذیر جان بلوچ کو 90روز کے لیے رینجرز کی تحویل میں دیدیا ہے ۔ہفتے کی سہ پہر کو عذیر جان بلوچ کو سخت سیکیورٹی میں سندھ ہائیکورٹ لایا گیا اور رینجرز اہلکاروں نے ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جہاں رینجرز اہلکاروں نے عدالت سے 90روزہ ریمانڈ کی استدعا کی ،عدالت نے اہلکاروں کی استدعا منظور کرتے ہوئے عذیر بلوچ کو رینجرز کی تحویل میں دیدیا ہے ۔

دوسری جانب رینجرز حکام نے ملزم سے مشترکہ تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کی سفارش کی ہے ،قبل ازیں رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کی عمارت میں موبائل کے ذریعے وڈیو اور تصویر بنانے پر پابندی عائد کردی ہے۔

(جاری ہے)

عدالتی عمارت کے کوریڈور اور کمرہ عدالت میں کسی قسم کی وڈیو یا تصویر بنائی یا شیئر کی گئی تو کارروائی کی جائے گی۔رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ نے اس معاملے میں میڈیا سے تعاون کی اپیل کی ہے۔

کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ اور لیاری گینگ وار کے اہم کردار عزیر جان بلوچ کو سندھ رینجرز نے گرفتار کرلیا،ملزم کو دبئی سے واپسی پر کراچی میں داخل ہوتے ہوئے حراست میں لیا گیا ، قبضے سے اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے،عزیر بلوچ پر قتل، اقدام قتل، اغوا اور بھتہ خوری کے مقدمات درج ہیں، اطلاعات تھیں کہ عزیر جان بلوچ پاکستان سے فرار ہونے کے بعد ملائیشیا اور دبئی میں روپوش ہیں۔

رینجرز کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق پاکستان رینجرز سندھ نے گزشتہ رات ایک ٹارگیٹڈ کارروائی کے دوران کراچی کے مضافات سے لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کو کراچی میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ عزیر بلوچ سے اسلحہ بھی برآمد کیا گیا،۔ گینگ وار کے اہم کردار عزیر بلوچ پر قتل ، اقدام قتل ، بھتہ خوری ، اغواء برائے تاوان سمیت دہشت گردی کے دیگر واقعات میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

عزیر بلوچ کے خلاف کلاکوٹ ، چاکیواڑہ ، نیپیئر ، بغدادی سمیت دیگر تھانوں میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات بھی درج ہیں۔ عزیر بلوچ نے سیاسی پشت پناہی پر کالعدم پیپلز امن کمیٹی کا جھنڈا گاڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے امن کمیٹی شہر کراچی میں خوف کی علامت بن چکی تھی جن کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے پیپلز امن کمیٹی کو ختم کرنے کا اعلان کیا اور پھر عزیر بلوچ نے پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف اعلان بغاوت کیا تو پھر سال دو ہزار بارہ میں ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم نے لیاری میں آپریشن شروع کیا۔

آٹھ روز تک جاری رہنے والا آپریشن بغیر کسی اہم کامیابی کے ختم ہوگیا جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی حکومت کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اب رینجرز کی جانب سے عزیر بلوچ کی گرفتاری اہم کامیابی ہے اور امید ہے کہ اب لیاری سے گینگ وار کی جڑیں ختم ہوجائیں گی۔ واضح رہے کہ عزیر بلوچ کو لیاری گینگ وار کا مرکزی کردار کہا جاتا ہے اور ان پر کراچی کے علاقے لیاری کے مختلف تھانوں میں قتل، اقدام قتل اور بھتہ خوری سمیت درجنوں مقدمات درج ہیں۔

عزیر بلوچ 2013 میں حکومت کی جانب سے ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن شروع ہونے پر بیرون ملک فرار ہوئے تھے، حکومت سندھ متعدد بار عزیر جان بلوچ کے سر کی قیمت مقرر کر چکی ہے جبکہ اس کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر ریڈ وارنٹ بھی جاری ہو چکے ہیں۔پولیس کو مطلوب عزیر بلوچ کو مسقط سے بائے روڈ جعلی دستاویزات پر دبئی جاتے ہوئے انٹر پول نے 29دسمبر 2014 کو گرفتار کیا تھا۔

عزیر بلوچ کو پاکستانی حکومت کے حوالے کرنے کے لیے سندھ پولیس کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن نوید خواجہ کی سربراہی میں ایس ایس پی سی آئی ڈی عثمان باجوہ، ڈی ایس پی کھارادر زاہد حسین پر مشتمل ٹیم دبئی گئی تھی، تاہم وہ خالی ہاتھ واپس آگئی تھی۔عزیر بلوچ کو پاکستان واپس کب لایا گیا، اس حوالے سے اب تک کچھ واضح نہیں ہوسکا۔عزیر نے 2001 کے انتخابات میں لیاری کے ناظم کی حیثیت سے سیاست میں اپنی قسمت آزمانے کی کوشش کی لیکن انہیں پیپلز پارٹی کے کٹر کارکن حبیب کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

ٹرانسپورٹر فیض محمد عرف فیضو ماما کے بیٹے عزیر نے 2003 میں محمد ارشد عرف ارشد پپو کے ہاتھوں اپنے والد کے قتل کے فوراً بعد جرائم کی دنیا میں قدم رکھ دیا تاکہ اپنے والد کے قتل کا بدلہ لے سکیں۔ارشد پپو، عزیر بلوچ کے کزن عبدالرحمان عرف عبدالرحمان ڈکیت کے حریف سمجھے جاتے تھے۔عبدالرحمان اور ارشد پپو گینگ کے درمیان لیاری میں منشیات اور زمین پر ایک طویل عرصے تک گینگ وار جاری رہی۔

عدالت میں والد کے مقدمے کی پیروی کے دوران عزیر بلوچ کو ارشد پپو گینگ سے دھمکیاں موصول ہوئیں جس پر عبدالرحمان ڈکیت نے انہیں اپنے گینگ میں شامل کر لیا۔اس حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عزیر نے ابتدائی طور پر رحمان کے گینگ میں شمولیت سے انکار کردیا تھا لیکن جیسے ہی انہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ دونوں کا دشمن مشترک ہے تو انہوں نے رحمان کے گینگ میں شمولیت اختیار کر لی۔

پولیس ان کاوٴنٹر میں عبدالرحمان ڈکیت کی موت کے بعد عزیر گینگ میں مرکزی کردار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور تمام گینگ کے باہمی اتفاق رائے سے بلامقابلہ گینگ کے نئے سربراہ مقرر ہوئے۔غیر اعلانیہ طور پر پیپلز امن کمیٹی سے وابستگی رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی 2012 تک عزیر بلوچ کو تحفظ فراہم کرتی رہی لیکن اس موقع پر حالات نے کروٹ لی۔

ٹپی کے نام سے مشہور اویس مظفر لیاری سے انتخابات میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن عزیر بلوچ نے ان کی اس خواہش کو مسترد کردیا، اس موقع پر پیپلز پارٹی اور امن کمیٹی کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے اور نتیجتاً ہنگامی بنیادوں پر اپریل 2012 میں آپریشن شروع کردیا گیا جو مقامی لوگوں اور اندرونی ذرائع کے مطابق مکمل سیاسی مقاصد کی وجہ سے کیا گیا۔

ایک ہفتے یہ آپریشن ختم کردیا گیا اور پیپلز پارٹی کو عزیر کے مطالبات کے آگے سرخم تسلیم کرنا پڑا، عزیر نے مطالبہ کیا تھا کہ 2013 کے عام انتخابات میں ان کے منتخب کردہ امیدواروں کو پیپلز پارٹی ٹکٹ دے گی۔تاہم اگر لیاری میں ان کی موجودگی کی بات کی جائے تو ذرائع کے مطابق اندرونی طور پر مستقل جاری لڑائیوں کے باعث یہ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور پیپلز امن کمیٹی کا اب کوئی وجود نہیں۔

عزیر بلوچ دہشتگردی، قتل اور بھتہ سمیت 20 سے مقدمات میں مطلوب تھے لیکن جو کارروائی انہیں انہیں منظر عام پر لے کر آئی وہ سپریم کورٹ کی جانب سے لیا گیا سوموٹو نوٹس تھا جو اعلیٰ عدلہ نے عزیر کے ارشد پپو قتل کیس میں ملوث ہونے پر لیا۔ ادھروزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ ڈی جی رینجرز نے عزیر بلوچ کی گرفتاری پر مجھے اعتماد میں لیا جب کہ ملزم کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔

سکھر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ عزیر بلوچ کو پہلے تحویل میں لیا گیا تھا پھر گرفتاری ظاہر کی گئی لہٰذا اس کا فیصلہ تو عدالت نے ہی کرنا ہے تاہم عزیر بلوچ کی گرفتاری پر ڈی جی رینجرز نے مجھے اعتماد میں لیا اور انہوں نے بتایا کہ ملزم پر قتل ڈکیتی اور دیگر جرائم کے مقدمات ہیں جس پر ڈی جی رینجرز سے کہا کہ ان سب چیزوں کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ عزیر بلوچ کئی مقدمات میں مطلوب ہے اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہے۔ انہوں نے کہا کہ عزیر بلوچ کی گرفتاری کے لیے ٹیم ہم نے ہی دبئی بھیجی تھی، ہم جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کے سخت خلاف ہیں، ہم نے دہشت گردوں کی نہ کبھی حمایت کی ہے اور نہ ہی ایسا کریں گے لہٰذا ہمارا موٴقف تھا کہ سینئر سیاستدان کی گرفتاری سے قبل ہمیں اعتماد میں لیا جائے۔

قائم علی شاہنے کہا کہ سندھ میں اغوا برائے تاوان کا کوئی مسئلہ نہیں، ہم نے کراچی سمیت پورے سندھ میں امن بحال کیا، کراچی میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے اہم اقدامات کیے، انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں بھی اضافہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں کراچی کے حالات بد ترین تھے لیکن گزشتہ پانچ سے 6 سالوں میں حالات بہت بہتر ہوئے ہیں، ہم نے دہشت گردوں کے خلاف امن کے قیام کے لیے بہت سی کامیابیاں حاصل کیں اور بہت سے دہشت گردوں کو کیفرکردار تک بھی پہنچایا گیا جب کہ کراچی آپریشن کو اندرون سندھ تک لانے میں بھی ہماری ہی دلچسپی تھی۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ پیپلزپارٹی شدت پسندی کے خلاف ہے اور اس کا عملی ثبوت بھی دیا ہے جب کہ دہشت گردوں کے خلاف سندھ حکومت کی کوششوں کو سراہا گیا ہے، کراچی میں امن وامان کی بحالی میں رینجرز اور پولیس نے اچھا کام کیا لیکن بعض لوگوں کو ہمارے کام نظر نہیں آتے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک سال سے کراچی میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا جو امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے جب کہ یقیناً وزیر اعظم نواز شریف نے بھی ہمارا بہت ساتھ دیا لیکن حقیقی معنوں میں انہیں جو حصہ ڈالنا چاہیے تھا وہ نہیں ڈالا، وزیر اعظم نے متعدد بار سندھ کی ترقی کے لیے فنڈز کا وعدہ بھی کیا لیکن آج تک کوئی وعدہ وفا نہ ہوسکا اور ایک کوڑی بھی نہیں دی گئی۔

قائم علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہماری وفاق سے کوئی لڑائی نہیں صرف بعض معاملات پر تحفظات ہیں کیونکہ 18 ویں ترمیم میں صوبوں کو مکمل خودمختاری دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ نے امن کے قیام، غربت کے خاتمے کے لیے پروگرام، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہت سے اقداما ت کیے اور جو کام گزشتہ 30 سالوں میں نہیں ہوئے تھے ہم نے چند سالوں میں کردکھائے۔ انہوں نے کہا کہ سکھر کی ترقی کے لیے ڈھائی ارب روپے خرچ کرچکے ہیں لیکن فنڈز لگنے کے باوجود بھی ترقی کا نہ ہونا باعث تشویش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں نے جس طرح جمہوریت کی جدوجہد میں ہمارا بھرپور ساتھ دیا اب وہ سندھ کی ترقی کے لیے بھی دلچسپی لیں