بچوں کی نازیبا تصاویر یا فلم بنانے پر 5سے7سال سزا دی جائیگی، سینٹ فنکشل کمیٹی کو بریفنگ،قصور واقعہ کو مدنظر رکھ کر بچوں سے متعلق قانون سازی میں بہتری لائی گئی،کمیٹی نے صوبوں اور اسلامی نظریاتی کونسل سے ترمیمی بل پر سفارشات طلب کر لیں،بدقستمی سے قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے ،ریاستی رٹ قائم نہ ہونے اور حقوق کی عدم فراہمی کے ہم سب ذمہ دار ہیں،کمیٹی چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل

جمعرات 3 مارچ 2016 10:26

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔ 3مارچ۔2016ء) سینیٹ فنکشنل کمیٹی ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں فوجداری قانون ترمیمی بل2015 پاور ریگولیشن 2011کی بریفنگ اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی طرف سے ْقصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعہ پر بحث کی گئی۔اجلاس میں چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ قوانین موجود ہونے کے باوجود عمل درآمد کا ہے اور دوہرے انصاف کی وجہ سے مشکلات ہیں ۔

عدالتیں انصاف فراہم کرتیں یا انصاف حاصل کر لیا جاتا تو ملک موجودہ صورتحال میں نہ ہوتا ۔بدقستمی سے قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے ،ریاستی رٹ قائم نہ ہونے اور حقوق کی عدم فراہمی کے سب ذمہ دار ہیں۔کمیٹی اجلاس میںآ گاہ کیا گیا کہ جرم سرزد ہونے پر بچوں کی سزا کی عمر کی حد 7سے10سال کی سفارش کی گئی ہے ۔

(جاری ہے)

بچوں کی نازیبا تصاویر یا فلم بنانے پر 5سے7سال کی سزا دی جائیگی۔

قصور واقعہ کو مدنظر رکھ کر بچوں سے متعلق قانون بنانے میں بہتری لائی گئی ہے۔کمیٹی نے صوبوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی ترمیمی بل کے حوالے سے سفارشات طلب کر لیں اور کہا گیا کہ صوبوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو دیکھ کر ہی بل کی منظوری دی جائیگی۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ صوبوں سے کی گئی مشاورت کا ریکارڈ کمیٹی میں پیش کیا جائے اورقومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی طر ف سے بل کے شق اور جائزہ سے بھی آگاہ کیا جائے۔

وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا کہ کمیشن کو ویٹو کا اختیار نہیں اور کمیشن کے ساتھ حکومت بہتر تعلقات کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کمیشن کے اختیارات میں اضافے ،کمیشن کے انتظامی معاملات کیلئے کوشاں ہیں۔وزیر اعظم کے معاون خصوصٰ بیرسٹرظفر اللہ خان نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر میں کئی معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے ۔

اقوام متحدہ کی طرف سے بچوں سے زیادتیوں کا معاملہ اٹھایا جاتا ہے ۔بچوں کی صحت اور تعلیم کی سہولیات کے بارے میں زیادہ اختلافات نہیں۔مئی2016میں بچوں کے بین الا اقوامی کمیشن کے اجلاس میں بچوں کے تحفظ کے کمیشن کے قیام کی رپورٹ دی جائیگی۔وفاقی وزیرزاہد حامد نے کہا کہ خواتین اقلیتوں اور معذور افراد کے قومی کمیشن بھی بنائے جا رہے ہیں۔سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ صوبوں سے مشاورت کے بعد قانون سازی اور آئین پر عمل کو یقینی بنانے کے اقدامات اچھا قدم ہیں۔

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے حوالے سے ایگزیکٹو اتھارٹی کے کردار کا تعین ضروری ہے۔سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے اپنی پارٹی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری کے بھائی کے لاپتہ ہونیکا معاملہ اٹھایا ۔سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے علاوہ اغواء برائے تاوان کے مسائل بھی ہیں۔سینیٹرسحر کامران نے کہا کہ سانحہ قصور انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت تھی ۔

کمیٹی اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی طرف سے آئی جی پولیس پنجاب کو ذمہ دار پولیس افسران کے خلاف کاروائی اور جے آئی ٹی کے سربراہ کے اقدامات کی رپورٹ حاصل کی جائے۔سانحہ قصور کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ انسانی حقوق کی کمیشن کے تین ممبرا ن نے حسین آباد قصور کا دورہ کیا ۔دو ممبران پنجاب سے اور ایک کا تعلق اسلام آباد سے تھا۔

ممبران میں کشور شاہین،مسیح ناز اور چوہدری شفیق شامل تھے۔فضیلہ عالیانی اور چوہدری شفیق نے آگاہ کیا کہ اس طرح کے واقعات2010سے شروع تھے ۔اس جرم کے گروہ کا سرغنے کے رشتے دار سول عدالتوں میں ملازم ہیں جس کی وجہ سے مقدمات درج نہ ہوئے ۔معاملہ2010سے چل رہا تھا مقدمہ درج کرانے والے شکایت کنندگان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کرائے گئے ۔پولیس کے خوف سے لوگ شکایت کرنے سے خوفزدہ تھے۔

کمیشن نے ضلع کی پولیس اور انتظامیہ کے خلاف حکومت پنجاب اور آئی جی پولیس کو کاروائی کی سفارش کی ۔دو دفعہ یاد دہانی کے خطوط بھی لکھے لیکن ابھی تک جواب کا انتظار ہے۔آٹھ سفارشات بھجوائی گئی ہیں اور آگاہ کیا گیا ہے کہ کمیشن کی سفارش پر وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب کی مداخلت سے دہشت گردی کے مقدمات واپس لے لیے گئے ہیں۔وفاقی وزیر زاہد حامد نے مزید کہا کہ نیا قانون لارہے ہیں جس میں بچوں کے حقوق کا تحفظ ہو گا۔

کمیٹی اجلاس میں وزارت اور وفاقی وزیر معاون خصوصی اور وزارت قانون کمیشن انسانی حقوق کی جامع بریفنگ کے بعد ترمیمی بل متفقہ طو رپر منظور کر لیا گیا جس پر وفاقی وزیر اور معاون خصوصی نے کہا کہ آج کا دن خوشی کا دن ہے۔6سال سے زیر التواء بل متفقہ منظور ہو گیا ہے ۔سینیٹرفرحت اللہ بابر نے کہا کہ سول پاور ریگولیشن2011کے تحت حراست میں لئے گئے افراد سزا پانے والے رہائی پانے والے افراد سے متعلقہ تھا ۔

کتنی تعداد کے خلاف کاروائی کی گئی کتنے رہا کئے گئے کمیٹی میں ریکارڈ دیا جائے وزارت سیفران کی طرف سے آگاہ کیا گیا کہ ریگولیشن جاری کر دیا اب باقی تمام امور کا ریکارڈ وزارت دفاع اور داخلہ سے لیا جائے۔جس پر سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ریگولیشن وزارت سیفران نے جاری کیا تمام کاروائیوں کی نگرانی بھی ا س وزارت کی ذمہ داری ہے۔چیئرپرسن کمیٹی نے کہ وزارت سیفران وزارت داخلہ کو لکھ کر حاصل کئے گئے ریکارڈ سے کمیٹی کوآ گاہ کرے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے انسانی حقوق کے علمبراد رضوان نیازی کے لا پتہ ہونے کا معاملہ اٹھایا جس پر چیئرپرسن نے کہا کہ اٹھانے والوں کے بارے میں بھی میکنزم ہونا چاہئے۔سینیٹر فرحت اللہ بابرنے کہا پورے ایوان پر مشتمل سینیٹ کی قانون اور انصاف کمیٹی نے بھی سفارش کی ہے کہ خفیہ اداروں کو آئین کا پابند کیا جائے ۔چیئرپرسن نے کہا کہ بول اور ایگزیکٹ کے8 سے 10ہزار ملازمین کی ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں اور ان کے گھر اوررہائش کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔

8 ماہ کے بعد بھی چالان پیش نہیں ہو سکا،کاروبار پاکستان سے باہر منتقل ہو رہا ہے۔ ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگیاں نہ ہونا بھی ا نسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور فیصلہ کیا گیاکہ کمیٹی اس معاملے پر اگلے اجلاس میں بحث کریگی۔لا پتہ افراد کے حوالے سے جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم لا پتہ افراد کمیشن اور نیشنل کرائسس مینیجمنٹ سیل سے بھی بریفنگ لی جائے۔کمیٹی اجلاس میں سینیٹرزفرحت اللہ ،نثار محمد،میرکبیر احمد،سحر کامران ،مفتی عبد الستار کے علاوہ وفاقی وزیر زاہد حامد،معاون خصوصی بیرسٹرظفر اللہ ،سیکرٹری قانون انصاف جسٹس (ر)رضا خان ،انسانی حقوق کمیشن کے شفیق چوہدری ،محسن لغاری ،فضیلہ عالیان کے علا وہ دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :