سیاسی معاملات میں نہیں جائیں گے،ہمارا کام کرپشن ثابت کرنا نہیں،سپریم کورٹ

عدالت کو فیصلہ دینا ہوگا کہ وزیر اعظم صادق اور آمین ہیں یا نہیں،سپریم کورٹ کریمنل کورٹ نہیں بلکہ آئینی ادارہ ہے ،عدالت کے سامنے معاملہ آئینی طور پر نااہل قرار دینے کا ہے ، جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس اسحاق ڈار کی منی لانڈرنگ کے بارے میں رپورٹ تیار ہوئی تھی، اس رپورٹ کو ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر رحمان ملک نے تحریر کیا تھا،وکیل تحریک انصاف عدالت جو پوچھے اس کا جواب دیا جائے ،جسٹس گلزار کی نعیم بخاری کوتنبیہ اسحاق ڈار نے بیان میں منی لانڈرنگ میں کردار کا اعتراف کیا، ماضی میں تو عدالت عظمی اخباری تراشوں پر بھی فیصلے کرتی رہی ،نعیم بخاری کے دلائل اگر آپ دوسری جانب دلائل دیں گے تو معاملہ کہیں اور نکل جائے گا، عدالت کا تقدس ہر حال میں برقرار رکھنا ہوگا، ہمیں اپنے دائرہ کار سے باہر نہ نکالیں،جسٹس اعجاز افضل کے ریمارکس بخاری صاحب عدالت کو مطمئن کریں قوم سے خطاب نہ کریں، آپ کہتے ہیں کہ رائے کی بنیاد پر بغیر ثبوت فیصلہ کریں، رحمان ملک کا نام شاید پاناما لیکس میں ہے، کیا عدالت فیصلہ کرنے کا اختیار رحمان ملک کو دے دے،جسٹس عظمت سعید،مزید سماعت آج پھر ہوگی

بدھ 11 جنوری 2017 14:19

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔11جنوری۔2017ء) جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم سیاسی معاملات میں نہیں جائیں گے ،منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیق تو بہت ہوئی لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلا ، قطری خط بظاہر سنی سنائی بات ہے اس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔پانامہ کیس لندن فلیٹس تک محدود ہے ۔عدالت کو فیصلہ دینا ہوگا کہ آیا وزیر اعظم صادق اور آمین ہیں یا نہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ پاناما لیکس کیس کی سماعت کی ۔ سماعت کے آغاز پر جسٹس آصف سعید نے ریمارکس دیئے کہ انہیں گزشتہ روز آرٹیکل 62,63 سے متعلق آبزرویشن نہیں دینا چاہئے تھی، انہیں اپنے الفاظ پر ندامت ہے اور وہ ان الفاظ کو واپس لیتے ہیں۔

(جاری ہے)

عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسحاق ڈار کی منی لانڈرنگ کے بارے میں رپورٹ تیار ہوئی تھی، جسے ستمبر 1998 میں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ، چیف جسٹس آف پاکستان اور نیب کو بھیجا گیا تھا ، اس رپورٹ کو ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر رحمان ملک نے تحریر کیا تھا۔

اس دوران جسٹس گلزار نے نعیم بخاری کو تنبیہہ کی کہ عدالت جب کوئی سوال پوچھے تو اس کا جواب دیا جائے۔جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار کے بیان کی کیا اہمیت ہے کیا وہ شریک ملزم ہے؟، ہمیں مطمئن کریں کہ نیب کو حدیبیہ کیس میں اپیل کرنا چاہیے تھی، اگر آپ دوسری جانب دلائل دیں گے تو معاملہ کہیں اور نکل جائے گا، سپریم کورٹ کا تقدس ہر حال میں برقرار رکھنا ہوگا، ہمیں اپنے دائرہ کار سے باہر نہ نکالیں، ہائی کورٹ مقدمہ ختم کر دے تو اس کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے۔

محض پولیس ڈائری کی بنیاد پر حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، تفتیشی ادارے جو اقدامات کریں انہیں قانونی طور پر پرکھنا ہوتا ہے، نیب کو تحقیقات کا کہہ سکتے ہیں لیکن ریفرنس دائر کرنے کا نہیں کہیں گے، سپریم کورٹ نیب اور ٹرائل کورٹ کا کام نہیں کر سکتی، آپ نیب کے پاس جائیں اور درخواست دیں، ہم ٹرائل کورٹ نہیں۔نعیم بخاری نے کہا کہ اسحاق ڈار نے بیان میں منی لانڈرنگ میں کردار کا اعتراف کیا، ماضی میں تو عدالت عظمی اخباری تراشوں پر بھی فیصلے کرتی رہی۔

جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ بخاری صاحب عدالت کو مطمئن کریں قوم سے خطاب نہ کریں، آپ کہتے ہیں کہ رائے کی بنیاد پر بغیر ثبوت فیصلہ کریں، یہ رپورٹ ایف آئی اے خود مسترد کر چکی ہے اس پر فیصلہ کیسے دیں، رحمان ملک کا نام شاید پاناما لیکس میں ہے۔ کیا عدالت فیصلہ کرنے کا اختیار رحمان ملک کو دے دے۔ اپنے دوست رحمان ملک کو جرح کے لئے کب لا رہے ہیں۔

نعیم بخاری نے کہا کہ ایف آئی اے کا مقدمہ اپنی طبعی موت مر گیا، وہ اپنے جواب الجواب میں رحمان ملک کو جرح کے لئے بلائیں گے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کریمنل کورٹ نہیں ہے، پولیس افسر کی رائے کی بغیر ثبوت کوئی قانونی اہمیت نہیں، راستہ صرف یہی ہے کہ چیئرمین نیب فیصلہ کے خلاف اپیل کریں، اپیل جانچنے کے بعد فیصلہ کریں گے دوبارہ تفتیش کا حکم دے سکتے ہیں یا نہیں۔

آپ کی تحقیق بہت اچھی ہے لیکن اس کا کیا فائدہ۔ آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ پہلے تفتیش اور پھر ٹرائل کورٹ بن کر فیصلہ دے حالانکہ عدالت کے سامنے معاملہ آئینی طور پر نااہل قرار دینے کا ہے۔فاضل ججز کے ریمارکس پر نعیم بخاری نے کہا کہ میں تو سٹپنی وکیل ہوں اصل وکیل تو حامد خان تھے، حامد خان کے کیس سے الگ ہونے پر بوجھ میرے کندھوں پر آگیا۔ وہ عدالت سے اہلیت کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی استدعا کرتے ہیں، جس پر جسٹس عظمت نے ریمارکس دیئے کہ آپ اب وکٹ پر آئے ہیں، آپ پچ سے باہر نکل کر نہ کھیلا کریں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے کہ آپ چاہتے ہیں ہم قانون سے بالاتر ہوکر تحقیقات کریں، کیا رحمان ملک نے بطور وزیر یہ معاملہ اٹھایا، کیا منی لانڈرنگ پر ہونے والی تحقیقات انجام کو پہنچیں۔ جس پر نعیم بخاری نے جواب دیا کہ وزیر داخلہ بننے کے بعد رحمان ملک کو یہ معاملہ اٹھانا چاہیے تھا، مخلوط حکومت بنی تو (ن) لیگ حکومت کا حصہ تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم سیاسی معاملات میں نہیں جانا چاہتے۔ منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیق تو بہت ہوئی لیکن نتیجہ کوئی نہیں نکلا، ہمارا کام کرپشن ثابت کرنا نہیں ہے۔ وقفے کے بعد جسٹس اعجاز الحسن نے ٹرسٹ ڈیڈ پر معاونت سے متعلق استفسار کیا تو نعیم بخاری نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ مقدمے کے بعد اپنے دفاع میں تیار کی گئی، اس کا مقصد نواز شریف اور مریم کو جائیداد سے الگ کرنا ہے،اس ٹرسٹ ڈیڈ کو ہمیشہ خفیہ رکھا گیا۔

اگر قطری خط کو باہر نکالیں تو ٹرسٹ ڈیڈ کو کوئی اہمیت نہیں، یہ خط رحمان ملک کی دستاویزات سے زیادہ کچھ نہیں۔ جس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ شریف خاندان کا سارا کاروبار میاں شریف کے ہاتھ میں تھا تو میاں شریف کے کاروبار کی منی ٹریل بچوں سے کیسے مانگ سکتے ہیں۔ کچھ غلط ہوا بھی تو اس کا جواب میاں شریف کے بچوں سے کیسے مانگیں۔ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ نواز شریف، حسین نواز اور مریم صفدر حدیبیہ ملز کے ڈائریکٹرز میں شامل تھے، طارق شفیع کی جگہ شہباز شریف نے فروخت کے معاہدے پر دستخط کئے۔

التوفیق کیس میں شہباز شریف بھی فریق تھے اور اس کیس میں 34 ملین ڈالرز ادا کئے گئے۔نعیم بخاری نے عدالت کے روبرو کہا کہ وزیراعظم نے کہا کہ جدہ ملز کی فروخت سے بچوں نے کاروبار کا آغاز کیا، حسن نواز کی 12 کمپنیوں میں 2005 تک 20 لاکھ پاوٴنڈ سے زیادہ رقم موجود تھی، یہ شواہد وزیراعظم کے بیان کی تردید کر رہے ہیں، جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو فیصلہ دینا ہ ہوگا کہ آیا وزیراعظم صادق اور آمین ہیں یا نہیں۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ دنیا کی کسی عدالت نے پانامہ لیکس کی بنیاد پر کوئی فیصلہ دیا۔ کیا ایسی کوئی ایک عدالتی مثال بھی موجود ہے۔ کیا شفاف ٹرائل کے بغیر عدالت فیصلہ دے سکتی ہے۔ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ آپ اس کی ابتدا کرسکتے ہیں اور ، پاناما کلیکس کی دستاویزات کو ہر جگہ درست تسلیم کیا گیا ہے،جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ مفروضے کی بنیاد پروزیر اعظم کو نااہل قرار دینا خطرناک عدالتی نظیر ہوگی، ہم کوئی ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتے، کیا قانونی معیار پر پورا نہ اترنے والی دستاویز پر فیصلہ کرنا درست ہوگا۔

دستاویزات کا جائزہ لینے پرعلم ہوگا وزیر اعظم نے اثاثے چھپائے یا نہیں، وزیر اعظم کی تقریر کا جائزہ لینا مختلف بات ہے اور وزیر اعظم کا پانامہ کے ساتھ تعلق دیکھنا الگ بات ہے، ان کی تقریر پر فوجداری مقدمہ کیسے بن سکتا ہے۔ وزیر اعظم کی تقریر اور پاناما کے درمیان تعلق کیسے ثابت کریں گے۔اس دوران جسٹس عظمت سعید شیخ اور نعیم بخاری کے درمیان دلچسپ مکالمہ بھی ہوا، جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو آپ کے لیے کچھ آسانیاں پیدا کروں، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ اب تک تو آپ نے مشکلات ہی پیدا کی ہیں۔

آپ کی بعض باتوں نے مجھے دکھی کیا ہے۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ تکلیف کے لئے معذرت لیکن ہمارا مقصد اصل حقائق تک پہنچنا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ صرف دلائل سنیں اور فیصلہ دے دیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ قطری خط بظاہر سنی سنائی بات ہے اس کی قانونی حیثیت پر سوال کرسکتے ہیں۔ کیس کی مزید سماعت آج(بدھ) کو دوبارہ ہوگی۔