اسلا م آباد سے پروفیسر کی گمشدگی کا معمہ حل نہ ہوسکا

وزیرداخلہ کی معاملے سے لاعلمی ، قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور وزارت داخلہ کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ پر سوالیہ نشان اٹھ گیا گزشتہ 12سالوں میں جبری گمشدہ افراد کی تعداد 8000تک جا پہنچی، آزادی اظہار وبال جان بن گئی ،کوئی پرسان حال نہیں

جمعرات 12 جنوری 2017 14:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔12جنوری۔2017ء) وفاقی دارالحکومت سے اغواء ہونے والے پروفیسر کی گمشدگی کا معمہ حل نہ ہوسکا، وزیرداخلہ کی معاملے سے لاعلمی نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور وزارت داخلہ کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا،گزشتہ 12سالوں میں جبری گمشدہ افراد کی تعداد 8000تک جا پہنچی، آزادی اظہار وبال جان بن گئی ،کوئی پرسان حال نہیں.تفصیلات کے مطابق گزشتہ ہفتے کی شب سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر سرگرم رہنے والے فاطمہ جناح وویمن یونیورسٹی کے پروفیسرسلمان حیدر کی گمشدگی نے شہر اقتدار میں لاپتہ افراد کے معاملے کو پھر سے ہوا دے دی ہے، ایک ہفتے میں سماجی رابطوں کی ویبز پرسرگرم رہنے والے 4افراد کی گمشدگی نے سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیموں کو سیخ پا کر دیا. وفاقی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی کوئی سراغ لگانے میں ناکام رہے ہیں، جس کے باعث ان کی کارکردگی پر کئی سوالات جنم لے رہے ہیں، ذرائع کے مطابق گزشتہ 12 سالوں میں گمشدہ افراد کی تعداد تقریبا 8000کو جا پہنچی ہے، جو پاکستان جیسے ملک میں انتہائی خطرناک ہے، وزیر داخلہ کی جانب سے سینٹ میں دیئے گئے بیان سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ وزارت داخلہ معاملے سے لاپتہ ہے اور اگر یہ جبری گمشدگی ہوئی تو وزارت داخلہ اور قانون نافذ کرنے اداروں کے مابین باہمی تعاون کی کمی پر کئی سوالات جنم لے رہے ہیں،فاطمہ جناح یونیورسٹی کے اغواء ہونے والے پروفیسرسلمان حیدر سے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ مغوی سوشل میڈیا پر ایک پیج بنا کر اہم ملکی و غیر ملکی معلومات مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی پالیسیوں اور تنگ نظر مذہبی تنظیموں کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

جبکہ باقی تین افراد ر بھی ایک سماجی رابطے کی سائٹ بھینسا پر سرگرم تھے،وزیرداخلہ نے معاملے کی چھان بین کے لئے حساس اداروں کو ہدایات جاری کر دی ہیں ، پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ مغوی پروفیسر کی آخری ملاقات اپنے ڈیپارٹمنٹ کی پرنسپل سے ہوئی جب وہ کسی اسٹیج ڈرامہ کی ریہرسل کر رہے تھے، تفتیشی افسر نے بتایا ہے کہ مغوی پروفیسر کے ای میل اکاؤنٹ، سوشل میڈیا اکاؤنٹ اور دیگر سوشل آئی ڈی کو قبضہ میں لے کر تفتیش کا حصہ بنا یا گیا ہے، جبری گمشدگی یا اغواء کے بارے ابھی کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی،واضح رہے کہ ایوان بالا میں وزیر داخلہ کی جانب سے منگل کو دیا جانے والا بیان بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں انہوں نے واضح کیا کہ کچھ شواہد سامنے آئے ہیں جنہیں قبل از وقت افشاکرنے سے تفتیش پر اثر پڑے گا ، پنجاب حکومت بھی ان واقعات کی تحقیقات کر رہی ہے ، پہلی ترجیح ان افراد کی بحفاظت واپسی ہے ۔

مغوی پروفیسر کو گزشتہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب اسلام آباد سے اغواء کیا گیا تھا اور تاحال ان کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔

متعلقہ عنوان :