پانامہ کیس ،اگر زنجیر نہ ٹوٹی ہو تو ہم تمام کڑیاں جوڑیں گے،سپریم کورٹ

وراثتی تقسیم سے متعلق 2 دن میں آگاہ کرنے کی ہدایت

جمعرات 26 جنوری 2017 11:33

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔26جنوری۔2017ء)سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ آپ ٹرسٹی ہیں آپ کو اثاثوں کا علم ہونا چاہئے، اگر زنجیر نہ ٹوتی ہو تو ہم تمام کڑیاں جوڑیں گے۔بدھ کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت شروع ہوئی تومریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز مریم نواز کے جواب پر بطور مجاز دستخط کئے تھے۔

(جاری ہے)

مریم نواز کی جانب سے دستخط کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ میاں شریف کے انتقال کے بعد جائیداد کی سیٹلمنٹ کیسے ہوئی ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمیں جائیداد کی تقسیم سے متعلق آگاہ کریں۔

وراثتی تقسیم سے متعلق ایک دو روز میں آگاہ کرسکتے ہیں ۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیپٹن (ر) صفدر نے 2011 میں ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کروائے ۔ٹیکس ویژن جمع نہ کرانے کا نتیجہ کیا ہوگا جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ الزام کاغذات نامزدگی میں اثاثے چھپانے کا ہے۔ ریٹرن جمع نہ کرانے پر کسی ادارے نے کارروائی نہیں کی۔ کیپٹن (ر) صفدر پر ریٹرن فائل نہ کرنے کا الزام ہے۔

وکیل شاہد حامد نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ ہونے پر نااہلی کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ معاملہ ایف بی آر کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ جسٹس اعجاز فضل خان نے کہا کہ کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے۔ الیکشن کمیشن کو فیصلہ کرنے کا اختیار ہے ریفرنس میں بھی یہی سوال اٹھایا گیا۔ سپریم کورٹ 184 شق 3 کے تحت کارروائی کیسے کرسکتی ہے۔

وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کی نااہلی کے لئے ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کے مقدمات کیوں دیکھیں ۔شاہد حامد نے کہا کہ وزیراعظم ہو یا عام شہری قانون سب کے لئے برابر ہے۔ وزیراعظم نے خود کو احتساب کے لئے پیش کردیا ۔کسی رکن کی نااہلی کے لئے کووارنٹو کی درخواست دائر ہوسکتی ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر آپ کو اعتراض ہی شاہد حامد نے کہا کہ کوئی اعتراض نہیں۔

سوال کا جواب دے رہا ہوں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ وزیراعظم کی نااہلی کا معاملہ کس عدالت میں زیر التواء ہی شاہد حامد نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں سپیکر کے فیصلے کے خلاف اپیل زیر التواء ہے۔ الزامات پر ریفرنس دیگر فورمز پر دائر ہے الزامات ونڈو شاپنگ کی طرح ہیں۔ کہیں تو دائو لگ جائے گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 63 کے تحت سپیکر سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

سپیکر ریفرنس خارج کردے تو کیا دادرسی کے لئے سپیکر کے پاس جائے گا ۔ دادرسی کے لئے سپریم کورٹ یا عدالت عالیہ سے رجوع کیا جاسکتا ہی عدالت پانامہ کی درخواستوں کو قابل سماعت قرار دے چکی ہے۔ اس معاملے پر ہماری معاونت کی جائے۔ شاہد حامد نے کہا کہ میرا اعتراض عدالتی اختیار پر ہے۔ قابل سماعت پر نہیں۔ مریم نواز عام شہری ہیں۔ یہ عوام اہمیت کا معاملہ کیسے ہے۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ وزیراعظم کی حد تک معاملہ عوامی اہمیت کا ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ مریم نواز کے خلاف سپریم کورٹ سے فیصلہ نہیں مانگا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الزام ہے مریم نواز والد کی فرنٹ مین ہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ یہ تو درخواست گزار نے ثابت کرنا ہے۔ فرض کریں کہ بیرون ملک جائیداد مریم کی ہے تو پھر بھی کیا ہوتا ہے ۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ کیا متنازعہ حقائق پر فیصلہ دے سکتے ہیں۔ تنازعہ حقائق پر فیصلہ شواہد ریکارڈ کرنے پر ہوسکتا ہے۔ شاہد حامد نے کہا کہ عدالت کے باہر سیاسی جھگڑے ہورہے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا سیاسی جھگڑے مناسب لفظ نہیں۔ سیاسی اختلافات کہہ سکتے ہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ میں جھگڑے کا لفظ واپس لیتا ہوں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مریم نواز کا کہناہے کہ حسین نواز کا این ٹی این نہیں ۔ہمیں بتایا جارہا ہے کہ حسین نواز کا این ٹی این ہے۔ فریقین نے پہلے دفاع میں قطری خط کا ذکر نہیں کیا ۔ضمنی جواب میں قطری خط کا ذکر موجود ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت میں دائر متفرق درخواست 420 ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میرے کہنے کا مطلب متفرق درخواست کو یہ نمبر الاٹ کیا گیا ۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اتنے دستاویزات جمع کرائے گئے دلائل دینا مشکل ہوگئے۔ پہلے دن سے کہہ دیا کیس دستاویزات میں دفن نہ کریں۔ مریم نواز کے وکیل نے دستخطوں کا جائزہ لینے کے لئے میگنی فائر فراہم کردیا ۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ دستخط کے معاملے پر کوئی ماہر ہی رائے دے سکتا ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ دستخط میں بظاہر کافی فرق نظر آرہا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مریم نواز کی ذاتی معلومات والے فارم پر دستخط موجود ہیں۔ پانامہ جا کر مریم نواز کے دستخطوں والی دستاویزات دیکھی نہیں جاسکتیں۔ منروا کمپنی کا نام ویب سائٹ پر خالی مل جاتا ہے۔ آپ کے عدسے سے جاسوس شرکال ہومز یاد آگیا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ ثابت کرنا ہوگا کہ دستاویزات کہاں سے آئیں۔

ثابت کرنا شکایت کنندہ کی ذمہ داری ہے۔ بغیر تصدیق ایسی دستاویزات قبول نہیں کی جاسکتیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق مریم نواز نیسکول اور نیلسن کی ٹرسٹی ہیں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کے تحریری جواب میں یکسانیت نہیں ۔مریم نواز نے کہا حسین نواز این ٹی این ہولڈر نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مریم نواز 2006 سے ٹرستی ہیں تو بیان میں غلطی نہیں ہونی چاہئے تھی۔

مریم نواز نے 2012 کے انٹرویو میں اثاثہ بیرون ملک نہ ہونے کا کہا۔ مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ2006 کی ہے۔ شاہد حامد نے کہا کہ مریم نواز نے انٹرویو میں کہا ان کی بیرون ٹرسٹی ہونے کا کیوں نہیں بتایا مریم نواز کو ٹرسٹی ہونے کا علم تھا شاہد حامد نے کہا کہ حسین نواز کے بچوں میں جائیداد کی تقسیم کے لئے مریم نواز کو ٹرسٹی بنایا گیا ۔مریم نواز کا بیان درست ہے۔

ان کا بیرون ملک کوئی گھر نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا جائیداد اور گھر الگ الگ چیزیں ہیں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مریم نواز کے انٹرویو میں فرق ہے تو ٹرانسکرپٹ فراہم کریں۔ ہمارے لئے ٹرانسکرپٹ بہت اہم ہے ہوسکتا ہے شکایت کنندہ کا ٹرانسکرپٹ درست نہ ہو۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ مریم نواز نے انٹرویو میں کہا وہ والد کے ساتھ رہتی ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مریم نواز نے کہا کہ ان کی پاکستان میں جائیداد نہیں مریم نواز کی زرعی اراضی تو تھی شاہد حامد نے کہا کہ مریم نواز کی پاکستان میں جائیداد ہے۔ ٹیکس باقاعدگی سے دیتی ہیں۔ جسٹس اصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دستخطوں کا معاملہ ایک معمہ ہے فیملی کے لوگ ایک دوسرے کے دستخط کردیا کرتے ہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ آف شور کمپنی کے اصل مالک حسین نواز ہیں ۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دستخطوں کے ماہرین کی رپورٹ کے باوجود فیصلہ عداکت کو کرنا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ عدالت میں دستخط کے ماہر پر جرح بھی ہوئی ہے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جائیدادوں سے متعلق بہتر معلومات شریف فیملی کو ہونی چاہئیں۔ کمپنیاں آپ کی ہیں آپ کو ان کے بارے میں علم ہونا چاہئے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ آپ ٹرسٹی ہیں آپ کو اثاثوں کا علم ہونا چاہئے اگر زنجیر نہ ٹوٹی ہو تو ہم تمام کڑیاں جوڑیں گے۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ دوسری جانب سے جعلی دستاویز دی گئیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ تحریک انصاف کی دستاویز مصدقہ ہونی چاہئیں۔ یہ نہیں کہا کہ تحریک انصاف نے جعلسازی کی۔ جسٹس اعجاز ا لاحسن نے کہا کہ کیا پھر امید رکھیں کہ تصدیق کے لئے تحریک انصاف پانامہ جائے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حسین نواز آف شور کمپنیوں کے مالک کیسے بنی مریم نواز بطور ٹرسٹی اپنا کردار ثابت کریں۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ معاملہ مریم نواز کے بینی فشنل ہونے یا نہ ہونے کا ہے ،حسین نواز کو مالک دکھانے کے بعد مریم نواز کو ٹرسٹی دکھائیں۔ انہوں نے کہا کہ بینی فشل مالک‘ ٹرسٹ ڈیڈ اور قطری خط کی کڑیاں ملائیں۔ بعد ازاں مقدمے کی سماعت کل جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔