گھروں میں کام کرنیوالی بچیوں کیلئے قانون میں تحفظ نہ ہونے پر تشویش ہے ،چیف جسٹس

یہ انکی نہیں، قانون بنانے والوں کی غلطی ہے ، طیبہ بیٹی کی ی طرح ہے ، کیس کو گہرائی سے دیکھنا ہوگا ،طیبہ تشدد کیس کی سماعت کی دوران ریمارکس

جمعرات 26 جنوری 2017 11:39

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔26جنوری۔2017ء) سپریم کورٹ میں طیبہ تشدد کیس کی سماعت کی دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ گھروں میں کام کرنے والی بچیوں کیلئے قانون میں تحفظ نہ ہونے پر تشویش ہے ، یہ ان کی نہیں بلکہ قانون بنانے والوں کی غلطی ہے ، طیبہ ان کی بیٹی کی طرح ہے ، کیس کو گہرائی سے دیکھنا ہوگا کیس کی سماعت بدھ کے روز چیف جسٹس کی سربراہی میں تین روکنی بینچ نے کی ۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا گھروں میں کام کرنے والی بچیوں کیلئے قانون میں تحفظ نہ ہونے پر تشویش ہے ، یہ میری نہیں بلکہ قانون بنانے والوں کی غلطی ہے ، طیبہ ہماری بیٹیوں کی طرح ہے ، اس کیس کو گہرائی سے دیکھنا ہوگا۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا جوڈیشل افسر کو ضمانت ملنے اور بچی حوالگی کے نکتے کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔

ملزمہ ماہین ظفر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے میں جو دفعات شامل کی گئی ہیں وہ قابل ضمانت ہیں ، چیف جسٹس نے کہا یہ تو پوچھ سکتے ہیں کہ ملزمان کو 2 جوڈیشل افسران نے کیسے ضمانت دی ؟ جوڈیشل افسران نے متاثرہ بچی کی حوالگی کا فیصلہ سنایا کیسے ؟ اس معاملے پر دونوں جوڈیشل افسران کو نوٹس جاری کرسکتے ہیں اور ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا ضمانت دینے اور بچی حوالگی سے پہلے نوٹس جاری کئے تھے ؟ سمجھ نہیں آتا کہ بچی کے والدین کو وکیل کے پاس کون لے گیا ، وکیل نے کس طرح والدین سے بیان پر دستخط کرائے ، جوڈیشل افسر نے بچی حوالے کی ، کیا اس وکیل راجہ ظہور کو تفتیش میں شامل کیا گیا ؟ جس پر پولیس حکام نے عدالت کو بتایا کہ وکیل راجہ ظہور کو شامل تفتیش کے لئے سمن جاری کئے ہیں ۔

متعلقہ عنوان :