امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سپریم کورٹ کے نویں جج کے لیے نیل گورسچ کو نامزد کردیا

جمعرات 2 فروری 2017 11:52

واشنگٹن ( اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔2فروری۔2017ء )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سپریم کورٹ کے نویں جج کے لیے نیل گورسچ کو نامزد کیا ہے۔امریکی سپریم کورٹ کے ججوں کے ریٹائرمنٹ کی کوئی حد نہیں ہے، اور بعض جج پچاس سال یا اس سے زیادہ عرصے تک اپنے عہدے پر فائز رہتے ہیں۔ کولوراڈو سے تعلق رکھنے والے جسٹس گورسچ کی نامزدگی کا اعلان کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جج کا فیصلہ ایک صدی تک اثرانداز ہو سکتا ہے۔

امریکی سپریم کورٹ کے نو جج ہوتے ہیں اور ان کا انتخاب صدر کرتا ہے۔ گذشتہ برس جج اینٹونن سکیلیا کے انتقال کے بعد سے یہ عہدہ خالی تھا۔اس وقت امریکی سپریم کورٹ میں چار جج ایسے ہیں جنھیں لبرل نظریات کے حامل سمجھا جا سکتا ہے، جبکہ بقیہ چار جج قدامت پرست خیالات رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

اگر گورسچ جج مقرر ہو جاتے ہیں تو سپریم کورٹ کا توازن قدامت پرستی کی جانب جھک جائے گا۔

اس نامزدگی کے مضمرات کے بارے میں امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی میں سکول آف گلوبل سٹڈیز کے ڈین عادل نجم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ امریکی سیاست میں اس فیصلے کی بہت زیادہ اہمیت ہے کیوں کہ سپریم کورٹ کے جج تاحیات مقرر ہوتے ہیں، اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے جج سکیلیا ہی کی طرح کے خیالات کے حامل جج کو نامزد کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ 'اسقاطِ حمل، ہم جنس پرستوں کے حقوق اور دوسرے متنازع معاملات میں اس نامزدگی کے گہرے اثرات پڑیں گے۔

'عادل نجم نے ایک اور نکتے کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'اگر آپ اس وقت سپریم کورٹ کو دیکھیں تو شاید ڈونلڈ ٹرمپ کو دو یا شاید تین مزید جج نامزد کرنا پڑیں، جس سے وہ سپریم کورٹ کی شکل بدل کر رکھ سکتے ہیں۔'جسٹس گورسچ کا خاندان طویل عرصے سے رپبلکن اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ ہے۔ ان کی والدہ این گورسچ سابق امریکی صدر ریگن کے دور میں ماحولیاتی تحفظ کے ادارے ای پی اے کی ڈائریکٹر رہ چکی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ میں مجموعی طور پر پروٹیسٹنٹ عیسائیوں کی واضح اکثریت ہے، لیکن سپریم کورٹ میں کوئی جج بھی پروٹیسٹنٹ نہیں ہے۔ اگر گورسچ کا تقرر ہو گیا تو وہ سپریم کورٹ کے واحد پروٹیسٹنٹ رکن ہوں گے۔

متعلقہ عنوان :