شام کی جیل میں 13 ہزار خفیہ پھانسیاں دینے کا انکشاف

شام کے پہاڑی علاقے میں موجود شہر صیدنایا کی جیل میں ہر ہفتے 20 سے 50 افراد کو اجتماعی پھانسی پر لٹکایا جاتا تھا جنگ کے دوران ان کے لیے اپنے ملک کا دفاع کرنا کسی بھی بین الاقوامی ٹریبیونل سے زیادہ اہم تھا ،ْبشار الاسد

منگل 7 فروری 2017 23:12

دمشق (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔8فروری۔2017ء)انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شام کی جیل میں 2011 سے لے کر اب تک 13 ہزار افراد کو دی گئیں خفیہ پھانسیوں کا انکشاف کیا ہے۔امریکی میڈیا کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا کہ شامی انتظامیہ نے دمشق کے شمال میں قائم ایک جیل میں گرفتار شدہ افراد کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع کیا۔

اس جیل کو مذبح خانے کا نام دیا گیا تھا۔2011 سے 2015 کے دوران ہونے والے واقعات کا احاطہ کرتی انسانی حقوق کے ادارے کی اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا کہ شام کے پہاڑی علاقے میں موجود شہر صیدنایا کی جیل میں ہر ہفتے 20 سے 50 افراد کو اجتماعی پھانسی پر لٹکایا جاتا تھا۔ان افراد کو دی جانے والی پھانسی کے احکامات سینئر شامی افسران کی جانب سے دیئے جاتے تھے جن میں شامی صدر بشار الاسد کے نائب بھی شامل ہیں جبکہ پھانسیوں پر عمل درآمد ملٹری پولیس سرانجام دیتی تھی۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں اس عمل کو 'طے شدہ مہم کے تحت ماورائے عدالت پھانسیاں' کا نام دیا گیا۔بیروت میں ایمنسٹی کے علاقائی دفتر میں ڈپٹی ڈائریکٹر کی ذمہ داریاں سرانجام دینے والی لین میلوف کے مطابق انسانی حقوق کے ادارے نے 1980 کے اواخر سے شام میں تشدد کے لیے استعمال کیے جانے والے 35 مختلف طریقوں کی بھی نشاندہی کی، جن پر 2011 سے عمل درآمد معمول بنتا جارہا ہے۔

دیگر کئی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی شام کی جیلوں میں خوفناک تشدد کے باعث زیر حراست افراد کی موت کے شواہد حاصل کرچکی ہیں۔گذشتہ سال سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایمنسٹی نے 2011 سے دوران حراست تشدد اور بدسلوکی کے نتیجے میں 17 ہزار افراد کی موت کی نشاندہی کی تھی، جس کے مطابق ہر ماہ 300 افراد موت کی وادی میں دھکیلے جارہے تھے۔دیکھا جائے تو یہ اعداد و شمار حلب میں جاری خانہ جنگی سے ہلاک ہونے والے افراد کے برابر ہی لگتے ہیں جہاں 2011 سے اب تک 21 ہزار افراد جنگی صورتحال کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔

ڈپٹی ڈائریکٹر لین میلوف کے مطابق رپورٹ میں شامل خوفناک انکشافات شامی حکومت کی جانب سے اختلاف رائے کو دبانے کے لیے شروع کی گئی مہم کو ظاہر کرتے ہیں۔ اعداد و شمار میں معلومات 2015 کی ہے لہذا لین میلوف سمجھتی ہیں کہ ہزاروں افراد کے قتل کے بعد اب یہ سلسلہ تھم چکا ہے، تاہم ماضی میں دی گئی یہ تمام پھانسیاں ایک یا دو منٹ کے مختصر ٹرائل کے بعد سنائی جاتی رہی ہیں، تاہم اس کی اجازت شام کی سب سے اعلیٰ مذہبی شخصیت سمیت وزیر دفاع سے بھی لی جاتی تھی۔

واضح رہے کہ شامی حکام اجتماعی پھانسیوں اور تشدد کے الزامات پر تبصرے سے گریز کرتے رہے ہیں، ماضی میں بھی بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے قتل عام کی ڈاکیومینٹریز اور رپورٹس کو مسترد کرکے انہیں پروپیگنڈا قرار دیا جاتا رہا ہے۔ رپورٹ میں سامنے آنے والے انکشافات 31 سابقہ زیر حراست افراد کے ساتھ ساتھ 50 سے زائد حکام اور ماہرین کے انٹرویوز میں سامنے آئے، جن میں سابقہ گارڈز اور منصفین بھی شامل ہیں۔

حاصل شدہ معلومات کے مطابق زیر حراست افراد کو بتایا جاتا تھا کہ انہیں شہری جیلوں میں منتقل کیا جارہا ہے مگر انہیں دوسری عمارت میں لے جا کر پھانسی پر لٹکادیا جاتا تھا۔اسی جیل میں قید ایک سابق گرفتار شخص عمر الشوگری کا انسانی حقوق کے ادارے کو بتانا تھا کہ گارڈز ان کے سیل تک آتے اور ان کے نام پکارتے، ایسا کبھی کبھار ہفتے میں تین بار ہوتا تھا۔

امریکی میڈیا سے گفتگو میں عمر کا مزید بتانا تھا کہ تشدد کا آغاز نصف شب سے کچھ پہلے کیا جاتا اور آس پاس کے چیمبرز میں موجود قیدیوں کو چیخ و پکار کی واضح آوازیں سنائی دیتیں، جس کے بعد ان افراد کو کسی بڑی گاڑی میں ڈال کر لے جایا جاتا۔صیدنایا کی جیل میں 9 ماہ گزارنے والا 21 سالہ عمر الشوگری اب سوڈان میں رہتے ہیں۔دوسری جانب شام کے صدر بشار الاسد کا کہنا ہے کہ جنگ کے دوران ان کے لیے اپنے ملک کا دفاع کرنا کسی بھی بین الاقوامی ٹریبیونل سے زیادہ اہم تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے سامنے آنے والے انکشاف کے بعد بیلجیئم میں انہوں نے میڈیا سے گفتگو کی ،ْبشارالاسد نے اقوام متحدہ کے اداروں پر شام سے غیرمنصفانہ رویئے کا الزام عائد کیا۔شامی صدر کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے جانبدار نہیں ہوتے، وہ امریکی اثرورسوخ اور فرانس و برطانیہ کی وجہ سے جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اور ان ممالک کا ایجنڈا مسلط کرنے کے لیے سیاست میں پڑ رہے ہیں۔ان کے مطابق انہوں نے ملک کے دفاع کے لیے اپنا فرض پورا کیا جبکہ حکومت اور فوج نے اپنی ڈیوٹی سرانجام دی، ہمیں اپنے ملک کا دفاع کرنا تھا اور ہر صورت میں کرنا تھا ،ْاس لیے ہمیں کسی عدالت یا کسی بھی بین الاقوامی ادارے کی کوئی پروا نہیں۔