قومی اسمبلی میں پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کرنے کا بل پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2017ء پیش کردیا گیا

قومی اسمبلی ،پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے آئینی اور آرمی ایکٹ ترمیمی بلز کی مخالفت

جمعہ 10 مارچ 2017 16:23

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔ ہفتہ مارچ ء) قومی اسمبلی میں پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم کرنے کا بل پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2017ء پیش کردیا گیا۔جمعہ کو وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2017ء قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے تحریک پیش کی کہ پاکستان آرمی ایکٹ (ترمیمی) بل 2017ء کو زیر غور لانے کیلئے متعلقہ قواعد کی متقضیات موقوف کی جائیں۔

قومی اسمبلی نے تحریک کی منظوری دیدی۔ بل کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ دو سال قبل ملک میں دہشت گردوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کی تھی جس کے مثبت نتائج نکلے ہیں۔ اب بھی ملک کے حالات ایسے ہیں جن میں یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ فوجی عدالتوں کو کام جاری رکھنا چاہئے۔

(جاری ہے)

ملک کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے اس ترمیم کے حق میں حکومت کا ساتھ دیا ہے اس حوالے سے اتفاق رائے کے لئے بات چیت کا عمل جاری رہے گا۔

ادھر) قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے لئے پیش کئے گئے آئینی ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی مخالفت کردی‘ پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ بل سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے‘ فوجی عدالتوں میں توسیع کی مدت ایک سال کرنے اور ہائی کورٹ و سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق فراہم کرنے کے لئے ترامیم پیش کریں گے‘ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پیش کیا گیا بل موجودہ حیثیت میں ہمارے لئے قابل قبول نہیں بل میں مذہب اور فرقے کا امتیاز ختم کرکے دہشت گردی کے خلاف عمومی بل بنایا جائے تو ہم حمایت کریں گے۔

دہشت گردی کو مذہب‘ فرقے‘ سیاسی جماعتوں اور مدارس سے جوڑنے کی حمایت نہیں کرسکتے۔ دیگر قوانین کی طرح اس قانون کا بھی پورے ملک اور تمام شہریوں پر یکساں اطلاق ہونا چاہئے۔ جمعہ کو ایوان میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے آئینی ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پیش کئے جانے کے بعد پیپلز پارٹی کی عذرا فضل جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم کے شیخ صلاح الدین نے بحث میں حصہ لیا بحث پیر کو بھی جاری رہے گی۔

سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ بل پر تحفظات دور کرنے کے لئے مزید مشاورت کی جائے۔ انہوں نے وزیر قانون زاہد حامد کو ہدایت کی کہ پیر کو بل پر اعتراض کرنے والے ارکان کے ساتھ مزید مشاورت کی جائے تاکہ اتفاق رائے حاصل کیا جائے ۔قبل ازیں بل پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں مزید توسیع کا بل پیش ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک دہشت گردی کی زد میں ہے ہر شہری خود کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے گلی کوچوں کے مسائل تو رہتے ہیں لیکن ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھایا گیا جب مسئلہ پورے ملک اور پوری قوم کا ہے اور بار بار کہا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب اور قوم نہیں اور اگر کوئی دہشت گرد ریاست کو چیلنج کرے تو اس کے خلاف پوری قوت سے کارروائی ہونی چاہئے لیکن جب بھی دہشت گردی کا لفظ آتا ہے تو اسے مدارس اور مذہب سے جوڑ دیا جاتا ہے یہ تاثر انصاف کے منافی ہے۔

پاکستان میں تمام مکاتب فکر نے دہشت گردی کے خلاف اور آئین کے حق میں قراردادیں منظور کی ہیں ہم بار بار کہہ چکے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف ملک کے ‘ فوج کے‘ حکومت اور پارلیمنٹ کے ساتھ ہیں۔ آرمی پبلک سکول کے واقعہ کے بعد آئین میں ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کی فوری ضرورت پیش آئی یہ بھی طے ہوا کہ یہ قانون دو سال تک رہے گا دو سال بعد دہشت گردی میں کمی کا تاثر تو سامنے آیا مگر دہشت گردوں کو سزا دینے کے لئے سول عدالتوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکا جس کی وجہ سے اس قانون میں توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی۔

دہشت گردی کی نئی لہر کا کیا مطلب لیا جائے ایک مطلب تو فوجی عدالتوں میں توسیع کا لیا گیا دوسرا مطلب تو یہ کہ فوجی عدالتیں بھی ناکام ہوگئی ہیں۔ کیا ہم فوج کی خدمات حاصل کررہے ہیں یا فوج کو دہشت گردی کے نام پر اختیارات فراہم کررہے ہیں کیا ایسا تو نہیں کہ جمہوری عمل میں فوج کے اختیارات بڑھائے جارہے ہیں کوئی بھی قانون امتیازی نہیں ہونا چاہئے اس میں پورا ملک شامل ہونا چاہئے اور تمام شہریوں پر نافذ ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ ہر قانون یکساں اور عام ہونا چاہئے اسے امتیازی نہیں ہونا چاہئے۔ امتیازی ہونے کی صورت میں اس پر اعتماد کم ہونا چاہئے۔ پہلے دن کہا گیا تھا کہ قانون میں مذہب اور فرقے کا نام لیا گیا ہے یہ مدارس مذہبی تنظیموں اور فرقوں کو فوکس کرتا ہے دہشت گرد تو یونیورسٹیوں سے بھی پکڑے گئے تمام بڑے دہشت گردوں کے حملوں میں پکڑے گئے یا مارے گئے لوگوں کا مدارس سے کوئی تعلق نہ نکلا میں اعلان کرتا ہوں کہ طالبان اسلام کا نمائندہ نام نہیں ہم اسلام کے نمائندے ہیں جو آئین اور قانون کے اندر کام کرتے ہیں۔

پھر مذہب اور فرقے کے نام پر کارروائی مناسب نہیں بلوچستان اور کراچی میں اسلحہ اٹھانے والوں پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اور ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے تو وہ دہشت گرد نہیں۔ ہم نے اس بل کو عمومی بنانے کے لئے ترمیم ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک خاص تاثر ی بو پاکستان کے لئے مناسب نہیں مدارس میں اصلاح کے نام پر مدارس کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔

مدارس پہلے سے رجسٹرڈ ہیں اگر چند مدارس رجسٹرڈ نہیں تو انہیں رجسٹرڈ کرایا جائے کسی کو اعتراض نہیں۔ منظم تنظیموں کی موجودگی میں مدارس میں محض افراد کی تلاش کی جارہی ہے۔ بندوق والے کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے مگر بندوق دینے والے کا بھی پتہ کیا جانا چاہئے کل مشرف کا بیان آیا کہ ضرورت کے مطابق جہادی تنظیمیں ہم نے بنائیں آج بھی کراچی سے پشاور تک بھتے کی پرچیاں آرہی ہیں اگر قومیت اور لسانیت کے نام پر یہ قانون بنایا جائے تو وہ بھی امتیازی ہوگا اس شکل میں جو قانون سامنے آیا ہے یہ اس حیثیت میں ہمیں منظور نہیں ہوگا۔

عذرا فضل نے کہا کہ ہمارے اس بل پر تحفظات ہیں یہ بل سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق ہونا چاہئے دو سال توسیع کی بھی مخالفت کرتے ہیں یہ مدت ایک سال کی ہونی چاہئے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہوا جس کی وجہ سے دہشت گردی ختم نہیں ہوئی صرف مقدمات چلانے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔

دہشت گردی کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اس لئے ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں اسے مزید غور و خوص کے لئے قائمہ کمیٹی کو ریفر کیا جائے سپیکر نے کہا کہ یہ بل مزید مشاورت کے لئے دوبارہ کمیٹی کو جائے گا۔ شیخ صلاح الدین نے کہا کہ پارلیمانی لیڈرز کے اجلاس میں طے ہوا تھا اگر مزید اتفاق نہ ہوا تو پرانا بل ہی پیش کیا جائے گا وزیراعظم کمیٹی کی سربراہی کریں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہوا پارلیمنٹ کی نگران کمیٹی ہونی چاہئے جو عمل درآمد کا جائزہ لے ۔ سپیکر نے زاہد حامد کو ہدایت کی کہ وہ پیر کو اس پر تمام جماعتوں سے مشاورت کریں اس کے ساتھ ہی سپیکر نے اجلاس پیر کی شام چار بجے تک ملتوی کردیا۔